Maktaba Wahhabi

224 - 265
ایسے حادثات مسلم ممالک میں بہت ہوئے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ ہر لیڈر جسے موقع ملتا ہے چھلانگ لگا کر معیشت پر قابض ہو جاتا ہے اور اس وقت چھوڑتا ہے جب خزانہ خالی ہوچکا ہوتا ہے حتی کہ عوام کا نان نفقہ بھی چھن جاتا ہے اور معیشت ڈوب چکی ہوتی ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے میں ایسے ظالم حکمران کی سزا قتل ہے۔ ایک دن انھوں نے خطبہ دیا اور فرمایا: ’’میں اپنی اور تمھاری مثال ایسے سمجھتا ہوں جیسے سمندری طوفان میں ایک کشتی چکر کھا رہی ہو۔ اور لوگوں کو کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو۔ پس وہ اپنے میں سے ایک شخص کو سرپرست مقرر کریں۔ اگر وہ سرپرست سیدھا رہے تو وہ اس کی پیروی کریں اور اگر وہ ظلم کرے تو وہ اسے قتل کر ڈالیں۔‘‘ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اگر وہ ٹیڑھا ہو جائے تو لوگ اسے معزول کر دیں؟ ‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’نہیں، قتل ہی بعد والوں کو زیادہ روکنے والا ہے۔‘‘[1] آج کل کے ان تنخواہ دار چوروں کو انصاف کے لیے کیوں پیش نہیں کیا جاتا تا کہ بعد میں آنے والے لوگوں کے حقوق کی نگہبانی اور حدود اللہ کی پاسداری کریں۔ کیوں ہم ان عقل کے غلاموں کو عدالتوں میں فیصلوں کے لیے پیش نہیں کرتے جنھوں نے اپنے وطن کے قیمتی قدرتی وسائل دشمن کے ہاتھ بیچ دیے۔ یا پھر ہم ایسے دور میں ہیں جن میں شرفاء اور خیر خواہوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس امت کو آج بھی ایک ابن خطاب کی شدید ضرورت ہے جو ایسے قائد کو معزول
Flag Counter