Maktaba Wahhabi

151 - 265
نجات مل جائے گی، لہٰذا فی الحال تم اپنی قوم کے پاس واپس چلے جاؤ۔‘‘ حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے مشرکین کے پاس واپس بھیج رہے ہیں کہ وہ مجھے فتنے میں ڈالیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: ابوبصیر! تم جاؤ تو سہی، عنقریب اللہ تعالیٰ تم سب کے لیے ضرور کوئی راستہ نکالے گا۔‘‘ ابوبصیر رضی اللہ عنہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے مکہ روانہ ہوگئے، راستے میں ابوبصیر کو ایک ترکیب سوجھی۔ انھوں نے سوچا کہ قریشی بڑے حیلہ ساز اور چال باز ہیں۔ انھوں نے اس طرح کی شرائط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجبور کرکے منوائی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ کمزور مسلمان جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کر لی ہے انھیں قریشیوں کے ظلم و ستم سے نجات دلوانا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے اپنے دل میں ٹھانی کہ جو بھی ہو مکہ واپس نہیں جانا بلکہ اپنے آپ کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف کردینا چاہیے۔ جن لوگوں کے دل نور ایمان سے منور ہوچکے ہیں ان کی طرف سے قریش کے لیے اب خرابی اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ جب وادی ذی الحلیفہ میں پہنچے تو دونوں قاصد پڑاؤ کے لیے اترے تاکہ کھانا بھی کھایا جا سکے اور کچھ دیر کے لیے استراحت بھی کی جاسکے۔ دوران کھانا سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے دونوں کی قوت کا جائزہ لیا حتی کہ جیسے ہی کھانا ختم ہوا تو انھوں نے جلدی سے ان میں سے ایک کی تلوار اٹھائی اور ایک کو قتل کر ڈالا۔ دوسرا فرار ہوگیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اللہ کی قسم! میرے ساتھی کو اس نے قتل کر ڈالا ہے اور مجھے بھی مار ڈالے گا۔
Flag Counter