Maktaba Wahhabi

91 - 180
چادر تھی جو سجدے کے وقت (پیچھے سے )ہٹ جاتی (اور میں برہنہ ہو جاتا) تو ایک عورت نے کہا(اس محلے کی ایک عورت) کہ تم اپنے قاری کی پچھاڑی کو ہم سے کیوں نہیں چھپاتے (ڈھانپتے ) پھر ان کو قمیص دی گئی۔ ‘‘ اب دیکھیں قرآن مجید کا معیار صرف حفظ تھا حتیٰ کہ سہیل بن سعد ایک لمبی روایت بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو شادی میں مہر قرآن مجید کی سورتیں حفظ کروانے کو کہا اور فرمایا: ((أَتْقَرَأُہُنَّ عَنْ ظَہْرِ قَلْبٍ؟ قَالَ نَعَمْ۔)) [1] ’’ کیا تو اس کو زبانی پڑھتا ہے تو اس نے ہاں میں جواب دیا۔ ‘‘ قرآن مجید کے حفظ کا میزہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم بچوں کو چھوٹے ہوتے ہی حاصل کرواتے کیونکہ چھوٹی عمر میں تعلیم راسخ ہوتی ہے جیسا کہ مشہور مقولہ ہے: ((اَلتَّعَلُّمُ فِی الصِّغْرِ کَالنَّقْشِ فِیْ الْحَجَرِ۔)) ’’چھوٹی عمر میں تعلیم ایسے ہے جیسا کہ پتھر پر نقش۔‘‘ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ((تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَأَنَا ابْنُ عَشَرَ سِنِیْنَ وَقَدْ قَرَأْتُ الْمُحْکَمَ۔)) [2] ’’اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے اور میں دس سال کا تھا اور محکم (سورتیں) پڑھا کرتا تھا۔ ‘‘ لیکن افسوس یہ ہے کہ آج اس کا ذوق رواج کی حد تک رہ گیا ہے حتیٰ کہ علماء بھی اس سے مستغنی ہو گئے ہیں۔ مساجد کے امام جنھیں قرآن مجید سے سب سے زیادہ شغف ہونا چاہیے تھا لیکن وہ بھی جتنا اُنھوں نے یاد کیا ہوا ہے اسی پر قناعت کرکے بیٹھے ہیں اور بار بار انھی حصوں کو فرضی نمازوں میں پڑھتے رہتے ہیں۔
Flag Counter