Maktaba Wahhabi

154 - 180
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام فصل (واضح) ہوتی تھی جو بھی سنتا اس کو سمجھتا تھا َ‘‘ اور جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((کَانَ فِیْ کَلَامُہٗ تَرْتِیْلٌ أَوْ تَرْسِیْلٌ۔))[1] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام میں ٹھہراؤ یا (درستگی سے بولنا) آہستگی تھی۔ ‘‘ اور انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((کَانَ إِذَا تَکَلَّمَ بِکَلِمَۃِ أَعَادَہاَ ثَلَاثًا حَتّٰی تَفْہَمَ عَنْہٗ وَإِذَا أَتَی عَلٰی قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ سَلَّمَ عَلَیْہِمْ ثَلَاثًا۔)) [2] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات کرتے تو تین مرتبہ اسے دہراتے حتیٰ کہ سمجھ لی جاتی اورجب کسی قوم پر آتے تو سلام کرتے تو تین مرتبہ۔ ‘‘ تو خطباء کے لیے اور علماء کے لیے یہاں لمحہ فکریہ ہے کہ تقریر و خطبہ سے مقصود تو دین کی سمجھ ہے لیکن اگر جذبات کی گاڑی پر سوار ہو کر لوگوں کے ساتھ مشکل اور تیز زبان بولی تو مقصود فوت ہوجائے گا بلکہ ایک غلط مقصود سامنے آئے گا کہ جناب والا اپنا آپ دکھلانا چاہتے ہیں لیکن جب کسی تحریکی تقابل کا موقع آئے تو اپنے منہج ونصب العین کو شد و مد اور جارحیت کے ساتھ بیان کرنے میں ممانعت نہیںلیکن یہ ہر وقت بھی نہیں۔ ٭زبان میں نرمی: زبان کی نرمی ایک اہم محرک ہے جو سامع کے جذبات کو کنڈی کے ساتھ مچھلی کو کھینچنے کے مترادف ہے چنانچہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا تھا : {فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِک } (آل عمران: 159) ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور
Flag Counter