Maktaba Wahhabi

87 - 180
سے ڈر رہا ہو۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے جیسا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم : ((کَانَ إِذَا مَرَّ بِآیَۃٍ خَوْفٍ تَعَوَّذَ إِذَا مَرَّبِآیَۃِ رَحْمَۃٍ سَأَلَ وَإِذَا مَرَّبِآیَۃٍ فِیْہَا تَنْزِیْہٗ اللّٰہِ سَبَّحَ۔)) [1] ’’جب آیت خوف پڑھتے تو اس سے پناہ مانگتے اور جب آیت رحمت پڑھتے تو اس کا سوال کرتے اور جب ایسی آیت تلاوت فرماتے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان ہوئی تو سبحان اللہ کہتے۔ ‘‘ گویا مومن کا منہج چونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے خوف اور اس کی جنت کی اُمید کے درمیان ہوتا ہے جو کہ اس حدیث نے بھی واضح کیا ہے کہ قرآن مجید کی تحسین فقط کانوں پر ہاتھ رکھ کر خوبصورت پڑھنا نہیں بلکہ بڑے پیار و وقار و شریں و میٹھی اور بغیر تکلف و تصنع کے لطیف وعمدہ تلاوت کا نام ہے جس میں لہجہ عرب کے موافق پڑھتے وقت خشوع و خضوع اور وقار بھی قائم رہے۔ نہ کہ تلاوت کے وقت پیشانی پر شکن پڑنا اور جلد جلد پلکیں گرانا یا زور سے آنکھیں بند کرنا اور ناک پھلانا اور منہ کو ٹیڑھا کرنا اور گرج د دار و رعشہ زدہ آواز نکالنا اور منہ کوگہرا کرکے گلے سے زور سے آواز نکالنا، سب تکلّفات ہیں جس سے طبیعتیں نفرت کرتی ہیں اور دل بیزار ہوتے ہیں اور یہی وہ تکلّفات ہیں کہ جنھوں نے لوگوں کو ترتیل و تجوید سے دور کردیا ہے اور اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((أَخَافُ عَلَیْکُمْ سِتًّا إِمَارَۃُ السُّفَہَائِ وَسَفْکُ الدَّمِ وَبَیْعُ الْحَکَمِ وَقِطِیْعَۃُ الرَّحِمِ وَنَشْوًا یَتَّخِذُوْنَ الْقُرْآنَ مَزَامِیْرَ وَکَثْرَۃَ الشُرِّطِ۔))[2] ’’عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
Flag Counter