Maktaba Wahhabi

102 - 180
((اَلْجَاہِرُ بِالْقُرْآنِ کَالْجَاہِرِ بِالصَّدَقَۃِ وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ کَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَۃِ۔)) [1] ’’قرآن مجید کو اونچی پڑھنے والا ایسے ہے جیسے صدقہ کو ظاہر کرکے کیا جائے (تاکہ دوسرے لوگ بھی کریں ) اور چھپا کر (آہستہ ) پڑھنا ایسا ہے جیساکہ چھپا کر صدقہ کرنے والا ہے (تاکہ ریاکاری سے بچے۔)‘‘ لیکن یہ قدرتی مزاج بنے ہوئے ہیں کوئی اونچاپڑھے تو یاد ہوتا ہے کوئی آہستہ پڑھے تو اسے یاد ہوتا ہے لیکن مقصود دونوں کا ایک ہے کہ قرآن مجید بھولے نہیں لیکن بھولنے کے معاملہ میں بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ نہیں کہنا چاہیے، میں بھول گیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((بِئْسَمَا لِأَحَدِکُمْ أَنْ یَّقُوْلَ نَسِیْتُ آیَۃَ کَیْتَ کَیْتَ بَلْ ہُوَ نُسِّیَ۔))[2] ’’یہ بری بات ہے کہ تم میں کوئی یہ کہے کہ میں فلاں آیت اس اس طرح بھول گیا بلکہ وہ تو بھلا یا گیا ہے (اس کے عدم اہتمام اور گناہوں کی وجہ سے )‘‘ لیکن پھر اس بھولنے کو لوگ عزت کا مسئلہ بناتے ہیں اور کئی ممنوع کام کرتے ہیں مثلاً حافظ قرآن نماز تراویح میں بھولے تو اس کی تصحیح کو پیچھے سے مقتدی پیش کرے تو ناراض ہو جاتے ہیں یا پھر خو دہی رکوع میں چلے گئے اور بجائے رکوع وسجدہ کی دعاؤں کے، وہ اپنی منزل دہراتے ہیں جو کہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : (أَ لَا وَإِنِّیْ نُہِیْتُ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَاکِعًا أَوْ سَاجِدًا فَالرُّکُوْعُ فَعَظِّمُوْا فِیْہِ الرَّبَّ وَأَمَّا السُّجُوْدُ فَاجْتَہِدُوْا فِی الدُّعَائِ فَقَمِنٌ أَنْ یُسْتَجَابَ لَکُمْ۔ ))[3]
Flag Counter