Maktaba Wahhabi

627 - 677
یہ اس طرح ہوا کہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک[1] یہ سمجھتا تھا کہ یہ گھناؤنی سازش تیار کرنے والے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔ وہ کہتے ہیں : میں ایک رات ولید بن عبدالملک کے پاس تھا اور وہ لیٹے ہوئے سورۂ نور کی تلاوت کر رہا تھا۔ جب وہ اس آیت پر پہنچا: ﴿ نَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ ﴾ (النور: ۱۱) ’’بے شک وہ لوگ جو بہتان لے کر آئے ہیں وہ تمھی سے ایک گروہ ہیں ، اسے اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر آدمی کے لیے گناہ میں سے وہ ہے جو اس نے گناہ کمایا اور ان میں سے جو اس کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا۔‘‘ تو اٹھ کر بیٹھ گیا۔ پھر کہنے لگا: اے ابوبکر! ان میں سے کس نے مرکزی کردار ادا کیا؟ کیا وہ علی بن ابی طالب نہیں ؟ بقول زہری میں نے دل میں سوچا: اب میں کیا کہوں ؟ اگر میں اس کی تردید کروں اور ناں کہہ دوں تو مجھے اس سے اذیت پہنچنے کا اندیشہ ہے اور اگر میں اس کی تائید کرتے ہوئے ہاں کہہ دوں تو یقیناً مجھ سے بڑا بہتان تراش کوئی نہیں ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا بے شک اللہ تعالیٰ نے سچ کہنے کے نتیجے میں میرے ساتھ بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔ میں نے کہہ دیا: ایسا نہیں جیسا آپ سوچ رہے ہیں ۔ بقول زہری ولید نے اپنی لاٹھی یا درّہ اپنے بستر پر زور سے مارا، پھر چیخ چیخ کر کہنے لگا۔ تو پھر کون؟ پھر کون ہے؟ اور یہ بات اس نے کئی مرتبہ دہرائی۔ میں نے کہا: ’’وہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔‘‘[2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا: ’’شاید جن نواصب میں کوئی بھلائی نہ تھی ان میں سے کسی نے اس جھوٹ کے ذریعے بنو امیہ کا تقرب حاصل کیا۔ تو انھوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کی غلط تاویل کر لی۔ کیونکہ
Flag Counter