Maktaba Wahhabi

600 - 677
کیا اور اللہ نے انھیں اس فعل بد سے اپنی پناہ میں رکھا۔ لہٰذا الزام لگانے والے کے ذمہ دلیل ہے وگرنہ ان کی شان میں یہ جھوٹ من گھڑت ہے۔ جیسا کہ متعدد بار لکھا جا چکا ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں رافضیوں نے بے شمار جھوٹے فسانے گھڑے ہیں ۔ وجہ نمبر ۲:.... گھروں میں قرار پکڑنے کا حکم ضرورت اور مصلحت عامہ کے لیے نکلنے کے خلاف نہیں ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے فرمایا تھا: ((اِنَّہٗ قَدْ اُذِنَ لَکُنَّ اَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِکُنَّ۔)) ’’یہ کہ تمہارے لیے اپنی ضرورت کے لیے نکلنے کی اجازت مل گئی ہے۔‘‘[1] چنانچہ عورت صلہ رحمی، عیادت مریض اور دیگر مصلحتوں کے لیے گھر سے باہر جا سکتی ہے اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ساری امت کی مصلحت کے لیے گھر سے نکلیں جو روٹھے ہوؤں کو منانے کے لیے گئیں اور انھوں نے اس مسئلہ میں اجتہاد سے کام لیا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا: گھروں میں ٹھہرنے کا حکم ایسی مصلحت کے لیے باہر جانے کے خلاف نہیں جس کا حکم دیا گیا ہو۔ جیسے مثلاً عورت حج و عمرے کے لیے جائے یا اپنے خاوند کے ساتھ سفر کرے، کیونکہ یہ آیات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نازل ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اکثر سفروں میں اپنی بیویوں کو ساتھ لے جاتے تھے جو کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد بھی جاری رہے ، جیسا کہ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور اپنی دیگر بیویوں کے ہمراہ سفر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کے بھائی عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اونٹ پر عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے پیچھے سوار کرایا جو انھیں تنعیم سے عمرہ کا احرام بندھوانے گئے اور حجۃ الوداع اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کم از کم تین ماہ پہلے ہوا۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج پر گئی تھیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وہ حج پر جاتی رہیں اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کی قطار کو سیّدنا عثمان یا سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی ا للہ عنہما کے سپرد کرتے۔[2]
Flag Counter