Maktaba Wahhabi

594 - 677
۴۔جب جنگ جمل میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو غلبہ حاصل ہوا تو وہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور کہا: اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت کرے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ کی بھی۔ میں تو صرف اصلاح کی نیت سے آئی تھی۔‘‘[1] گزشتہ نکات کا خلاصہ یہ ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف قتال یا ان کے ساتھ خلافت کے تنازع کے لیے نہیں آئیں بلکہ وہ محض لوگوں کے درمیان اصلاح کے لیے آئی تھیں ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا: ’’وہ نہ تو لڑیں اور نہ لڑنے کے لیے آئیں ، بلکہ وہ مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی نیت سے آئیں اور ان کو یہ گمان تھا کہ ان کے آنے میں مسلمانوں کی مصلحت پنہاں ہے، پھر بعد میں انھیں یقین ہو گیا کہ سفر نہ کرنا ان کے لیے زیادہ بہتر تھا۔ وہ جب بھی اپنی روانگیٔ سفر کو یاد کرتیں اتنا روتیں کہ ان کی اوڑھنی آنسوؤں سے بھیگ جاتی۔‘‘[2] امام ابن حزم رحمہ اللہ نے لکھا: ’’ام المومنین اور طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے۔ ان میں سے کسی نے کبھی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی امامت کو باطل نہ کہا اور نہ ہی ان کی امامت پر کوئی عیب لگایا اور نہ ہی ان کی ذات پر کوئی ایسا الزام لگایا جو انھیں امامت کے منصب سے گرانے کا باعث ہو اور نہ ہی انھوں نے کسی اور کو امام بنایا اور نہ ہی کسی اور کی بیعت لی۔ ایسا کہنے کی کسی کو کسی بھی طرح مجال نہیں ۔ بلکہ ہر صاحب علم کو یقین ہے کہ ایسا قطعاً نہیں ہوا۔ اگر کسی کو ان تمام باتوں میں کوئی شک نہیں تو اس سچ کا صحیح ہونا بھی یقینی ہے کہ وہ لوگ مدینہ سے بصرہ علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے کے لیے نہیں گئے تھے اور نہ ہی اس کی مخالفت ان کا مقصد تھی اور اگر ان کا ایسا کوئی ارادہ ہوتا تو وہ اس کی بیعت کے بعد نئے سرے کسی اور کی بیعت کرتے۔ لیکن انھوں نے ایسا کچھ نہ کیا۔ اس میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں اور نہ ہی اس سے کسی کو انکار ہے تو پھر یہ سچ ہے کہ وہ بصرہ اس لیے گئے تاکہ اسلام میں عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت سے جو زخم لگ چکا تھا وہ اس
Flag Counter