Maktaba Wahhabi

575 - 677
اس روایت میں سیّدنا عمرو رضی اللہ عنہ پر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی لعنت کرنے کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس لیے حاکم کی روایت میں اضافہ شاذ ہے، کیونکہ اس کی سند میں جریر نے ابو معاویہ محمد بن خازم کی مخالفت کی ہے یہ اس طرح ہے کہ ابو معاویہ اعمش سے جو روایت کرتا ہے وہ اوثق ہوتی ہے اس روایت سے جو روایت جریر بن عبدالحمید اعمش سے کرے۔[1] یحییٰ بن معین فرماتے ہیں : اعمش سے روایت کرنے میں ابو معاویہ جریر سے اثبت ہے۔[2] بلکہ جریر خود کہتے ہیں : ’’ہم اعمش کے پاس سے واپس آتے تھے تو اس کی بیان کردہ حدیث یاد کرنے میں ہم میں ابو معاویہ سے زیادہ کوئی نہ ہوتا۔‘‘[3] دوم:.... جو کچھ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سیرت و اخلاق کے بارے میں مروی ہے حاکم کی روایت میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے عمرو پر لعنت اس کے منافی ہے۔ کیونکہ جو بھی ان سے بدسلوکی کرتا وہ اس کے ساتھ کثرت سے عفو و درگز کرنے والی خاتون تھیں ۔ بلکہ وہ دوسروں کو ایسے شخص سے بدسلوکی کرنے سے روکتی تھیں ۔ اس کی دلیل ہشام کی وہ روایت ہے جو انھوں نے اپنے باپ سے کی ہے کہ واقعہ افک میں حسان بن ثابت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کردار کے بارے میں بڑھ چڑھ کر انگشت نمائی کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ میں نے ان کے متعلق بدکلامی کی تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے میرے بھانجے! تو اسے چھوڑ دے کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا کرتا تھا۔[4]
Flag Counter