Maktaba Wahhabi

567 - 677
یہی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے۔ جہاں تک بکری یا بکرے کے آنے اور صحیفہ کھانے کا کا قصہ ہے اس پر گفتگو آئندہ صفحات میں ہو گی۔ سوم:.... اگر یہ بھی کہا جائے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے مرجوح ہے تو کہا جائے گا کہ وہ سالم والی نص حدیث پر عمل پیرا ہے اور خاص ہونے کی دلیل چاہیے اور مجتہد سے کبھی کبھی نص مخصوص مخفی ہو جاتی ہے یہ مشکل تمام ابواب علم میں پیش آتی ہے۔ لہٰذا اس مقام پر ملامت کی کوئی گنجائش نہیں اور عائشہ رضی اللہ عنہا پر کسی نے بھی نص مخصوص واجب نہیں کی۔ اسی لیے جب ام سلمہ رضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ اس مسئلہ پر بحث کر رہی تھی اور وہ کہتی تھی کہ سالم والا واقعہ سالم کے ساتھ خاص ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا اسے کہتی تھیں کیا تیرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہتر نمونہ نہیں ۔ تب ام سلمہ رضی اللہ عنہا لاجواب ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے کو پسند کیا اور اسے اپنا لیا یا اس کے پاس اپنی رائے کی کوئی دلیل نہ رہی۔[1] چہارم:.... یہ کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی اس رائے میں تنہا نہیں ہیں ۔ بلکہ صحابہ و تابعین میں سے متعدد افراد نے یہی رائے اختیار کی۔[2] جیسا کہ یہ رائے صحابہ میں سے حفصہ، علی، ابو موسیٰ اور سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔[3] اور یہ رائے عروہ بن زبیر اور عبداللہ بن زبیر سے بھی منقول ہے اور یہی رائے عطاء، قاسم بن محمد اور لیث بن سعد کی بھی ہے۔ پنجم:.... یہ کہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر یہ قول اختیار کرنے کی وجہ سے طعن و تشنیع کرنے والوں کی رسوائی اس حقیقت سے واضح ہوتی ہے کہ متعدد علماء نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس قول کو ترجیح دینے کی دو وجوہات ذکر کی ہیں ، ان دو میں سے ہم طوالت کے خوف سے صرف ایک رائے کو مختصر طور پر تحریر کرتے ہیں ۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اس قول کے دلائل تحریر کرتے ہیں جس کے مطابق رضاعت کبیر سے حرمت ثابت ہوتی
Flag Counter