Maktaba Wahhabi

564 - 677
غلطی نہ کرے اور نہ ہی مجتہد کے لیے کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے۔ ہاں ! اللہ گواہ ہے کہ صرف روافض ائمہ کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ ظاہری طور پر باطل مذہب ہے۔ شیح الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’بلاشک و شبہ کہا جائے گا کہ امت مسلمہ کے لیے دقیق علمی مسائل مَغْفُوْرٌ لَّہُمْ ہیں اور اگرچہ یہ علمی مسائل ہی ہوں اور اگر یہ رعایت نہ ہوتی تو اکثر فضلائے امت برباد ہو جاتے۔‘‘[1] مزید فرماتے ہیں : ’’پس واضح ہوا کہ مجتہد سے اگر غلطی ہو جائے تب بھی اسے ایک اجر ملتا ہے۔ چونکہ اس نے اجتہاد کیا ہے اور اس کی خطا ’’مغفور لہ‘‘ ہے۔ کیونکہ تمام اصول احکام میں صواب و حق کو پا لینا یا تو مشکل ہے یا ناممکن ہے۔‘‘[2] چہارم:.... یہ کہ اس بات کو ام المومنین رضی اللہ عنہا پر الزام کا باعث بنانا الزام لگانے والے کے دل پر مہر کی دلیل ہے۔ تاہم مومن ہمیشہ عذر قبول کرتا ہے اور اسے مسئلہ نہیں بناتا اور اس کے ان فضائل کا احترام کرتا ہے جو اس کے لیے ثابت ہیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے کے بارے میں سلف صالحین کا یہی منہج ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے لکھا: کہ ایک آدمی نے قاسم بن محمد کو کہا: ہمیں عائشہ رضی اللہ عنہا پر تعجب ہے وہ سفر میں چار رکعات کیوں پڑھتی تھیں ؟ اس نے کہا: اے بھتیجے! تجھ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت لازم ہے تجھے جہاں سے بھی ملے، کیونکہ کچھ لوگوں پر عیب نہیں لگائے جاتے۔[3] ابو عمر نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں قاسم کا یہ قول سعید بن مسیب کے اس قول کے مشابہ ہے جس میں اس نے کہا: کوئی عالم، شریف، فاضل ایسا نہیں جو عیب سے خالی ہو لیکن کچھ لوگوں کے عیوب کا تذکرہ نہیں کیا جاتا اور جس کسی کا فضل اس کے نقص سے زیادہ ہو تو اس کا فضل اس کے نقص کو مٹا دیتا ہے۔[4]
Flag Counter