Maktaba Wahhabi

53 - 677
زمانے میں ہی کچھ منافقوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے حسد و بغض کا اظہار کرتے ہوئے ان پر تہمت لگائی جس سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی بریت کلی کا اعلان کیا۔ اس نے ان منافقوں کی تکذیب کی جنھوں نے ناحق سیّدہ پر تہمت لگائی اور اللہ کریم نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سیّدہ کی بریت کے ذریعے خوش کیا، اہل ایمان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی اور سیّدہ کے لیے اس تہمت سے اعلانِ براء ت کر کے منافقوں کی آنکھوں کو بھسم کر ڈالا۔ یہ صورتِ احوال دیکھ کر علمائے اُمت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی و اُخروی زوجۂ محترمہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضائل و تذکرہ کو خصوصی اہمیت دینا شروع کی۔‘‘[1] جو سوال گزشتہ سطور میں تحریر کیا گیا ہے ، اس کا جواب مزید ایک سو ال کی صورت میں دیا جا سکتا ہے ، جس سے یقیناً رافضیت کی سازش کے تاروپود بکھر جائیں گے، وہ یہ ہے کہ منافقو ں اور کینہ پرور رافضیوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہی اپنے زہریلے تیروں کا نشانہ کیوں بنایا ہے؟ اور اب تک طعن و تشنیع کا ہدف انھیں ہی کیوں بناتے ہیں اور یہ بغض و عناد میں بجھے ہوئے نشتروں کا رُخ انھی کی ذات گرامی قدر کی طرف کیوں کرتے ہیں ؟ تو اس سوال کا جواب ہم یہ دیں گے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات میں طعنہ زنی دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں طعنہ زنی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ﴾ (النور: ۲۶) ’’گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں ۔ یہ لوگ اس سے بری کیے ہوئے ہیں جو وہ کہتے ہیں ، ان کے لیے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے۔‘‘ شیخ عبدالرحمن السعدی رحمہ اللہ [2] اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’یہ آیت عام ہے کسی شخص یا زمانے کے ساتھ خاص نہیں اور اس آیت کے سب سے عظیم مخاطبین انبیاء علیہ السلام ہیں ، ان میں سے خصوصاً اولو العزم رسل اور ان میں سے اخص الخواص
Flag Counter