Maktaba Wahhabi

523 - 677
کی کوئی بات نہ تھی سوائے جو عورت اور اس کے سسرالیوں کے درمیان ہوتی ہے اور بلاشبہ انھوں نے حسن نیت کے ساتھ میرا مواخذہ کیا۔[1] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی دوسری حدیث کہ جس کے الفاظ یہ ہیں : ’’اللہ کی قسم! میں جانتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک علی رضی اللہ عنہ مجھ سے اور میرے باپ سے زیادہ محبوب ہیں اور آپ رضی اللہ عنہا نے یہ بات دو یا تین مرتبہ کہی۔‘‘[2] تو یہ اضافہ ہے جس کے متعلق ہیثمی نے کہا: ’’اسے ابو داؤد نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت کے تذکرہ کے بغیر روایت کیا ہے۔‘‘[3] اگر اس اضافے کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس میں علی رضی اللہ عنہ کے لیے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بغض کی کوئی دلیل نہیں اور اگر ایسے ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات پر خاموش نہ رہتے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نسبت بعض پہلوؤں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہوں ۔ جس طرح کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے دیگر پہلوؤں کی نسبت زیادہ محبوب ہوں ۔جہاں تک علی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خوشی کا معاملہ اور اس موقع پر ان کے شعر کہنے کی بات ہے تو اسے طبری نے اپنی تاریخ میں روایت کیا جو بلاسند ہے۔ جبکہ ابو الفرج اصفہانی نے اسے اپنی کتاب ’’مقاتل الطالبیین‘‘ میں سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اس نے کہا: مجھے محمد بن حسین اشنانی نے حدیث سنائی، اس نے کہا، ہمیں موسی بن عبدالرحمن مسروقی نے حدیث سنائی، اس نے کہا: ہمیں عثمان بن عبدالرحمن نے حدیث سنائی، اس نے کہا: ہمیں اسماعیل بن راشد نے اپنی سند کے ساتھ حدیث سنائی، اس نے کہا: ’’جب عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو انھوں نے یہ شعر پڑھ کر اپنا حال بیان کیا ....‘‘ [4] اصفہانی علوی شیعہ ہے۔ [5]
Flag Counter