Maktaba Wahhabi

507 - 677
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ سند صحیح ہے اور صحاح ستہ میں سے کسی نے اسے روایت نہیں کیا۔ البتہ حافظ ضیاء مقدسی نے اسے اپنی مستخرج میں نقل کیا ہے۔[1] بقول مصنف (سیرۃ عائشہ) اصل حدیث صحیحین میں ہے۔[2]جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے راز افشاء کیا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہیں ۔ اور اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ۔ طاہر بن عاشور نے کہا: اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو راز دیا تھا اور جسے انھوں نے بتایا تھا وہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔[3] شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ دہلوی[4] نے اس بات پر مفسرین کا اجماع نقل کیا وہ کہتے ہیں : ’’مفسرین کا اجماع ہے کہ راز کا افشاء سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے سرزد ہوا کسی اور سے نہیں ۔‘‘[5] یہ بات شیعہ کی تفاسیر میں بھی ثابت ہے، جیسے ’’مجمع البیان للطبرسی‘‘ میں مذکور ہے۔[6] طبرسی کا شمار شیعہ کے ان علماء میں ہوتا ہے جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علو شان کے معترف ہیں ۔ زین العابدین کو رانی نے کہا: اسی طرح ان کے علماء میں سے طبرسی نے بھی اپنی تصانیف میں صحابہ کی علو شان کا اعتراف کیا ہے۔ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیَ عَنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ اس نے مذکورہ آیات کو صحابہ کی عمومی اور خصوصی ثنا شمار کیا ہے بلکہ اس نے مزید آیات بھی اس ضمن میں درج کی ہیں ۔[7] ۲۔چلو یہی فرض کر لیتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز افشاء کیا تھا تو زیادہ
Flag Counter