Maktaba Wahhabi

465 - 677
موجودگی کی دلیل لیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان عداوت اس وقت سے ہے۔[1] بلکہ ان کے کچھ ائمہ تو تاکیداً کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت متواتر امر ہے۔ یہ ضرور تاً معلوم ہے اور جو اس کا انکار کرے گا وہ ضروری اور ثابت شدہ بات کا انکار کرے گا۔ ابن ابی الحدید کہتا ہے: ’’شیعہ میں سے ایک گروہ نے کہا ہے کہ سورۃ النور کی آیات عائشہ کے بارے میں نازل نہیں ہوئیں بلکہ وہ ماریہ قبطیہ کے متعلق نازل ہوئیں جب اس پر سیاہ فام قبطی غلام کے ساتھ ملوث ہونے کی تہمت لگی اور ان کا یہ انکار کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نزول آیات نہیں ہوا ایسا انکار ہے جو یقینی طور پر متواتر اخبار سے معلوم ہو چکا ہے۔‘‘[2] اسی ابن ابی الحدید نے دوسری جگہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت ثابت کی ہے۔ وہ لکھتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا پر صفوان بن معطل السلمی کے ساتھ ملوث ہونے کا الزام لگا اور یہ مشہور قصہ ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیشہ پڑھی جانے والی اور لکھی جانے والی آیات کے ذریعے سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل کی اور جنھوں نے اس پر تہمت لگائی تھی ان کو حد قذف کے کوڑے لگائے گئے۔[3] صافی شیعی نے ’’الجوامع‘‘ میں لکھا کہ حدیث الافک کا سبب یہ بنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنا ہار گم کر دیا۔ قمی نے کہا: ’’جمہور علماء کے مطابق یہ آیات عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازل ہوئیں اور غزوہ بنی مصطلق جو بنو خزاعہ کے خلاف لڑا گیا اس میں اس پر جو بہتان لگایا گیا....انتہٰی‘‘ اگر تو کہے کہ رازی[4] وغیرہ نے کہا: مسلمانوں کا اجماع اس بات پر ہے کہ اس سے مراد عائشہ رضی اللہ عنہا
Flag Counter