Maktaba Wahhabi

426 - 677
اپنے دل کو مطمئن کرنا چاہتا ہے، نیز میں اس طرح کے عیوب سے علی علیہ السلام کو بھی بری نہیں سمجھتا کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرکی مدح و ثنا کرتے تو وہ (علی) محسوس کرتا کہ یہ (ابوبکر) اس کا اہل نہیں اور وہ (علی) اپنے لیے ایسے امتیازات اور محاسن کی تمنا کرتا اور صرف اسے (ابوبکر کو) ہی نہیں بلکہ وہ اپنے علاوہ سب لوگوں کو ایسے محاسن کا اہل نہیں سمجھتا تھا اور جو شخص کسی انسان سے کینہ رکھتا ہے وہ اس کے اہل خانہ اور اس کی اولاد سے بھی کینہ رکھتا ہے۔ گویا ان مذکورہ دونوں فریقوں (ابوبکر و علی اور عائشہ و فاطمہ) کے درمیان خلش و بغض جیسی کمزوریاں موجود تھیں ۔ تو کیا رافضی علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسی سوقیانہ باتیں قبول کریں گے؟اللہ کی قسم! اگر شیعوں کو یہ طرز کلام اچھا لگتا ہے تو لگے لیکن اہل سنت کو اس کے باطل ہونے کے بارے میں ذرہ بھر شک نہیں اور مزید یہ کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان ایسی بکواسات سے بہت بلند ہے۔ پھر وہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ افک کے دوران علی، فاطمہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم کے متعلق لکھتا ہے: عورتوں نے اس (عائشہ) کے آگے علی اور فاطمہ کے متعلق بہت چغلیاں کھائیں اور یہ کہ ان دونوں نے اعلانیہ اور پوشیدہ دونوں طریقوں سے اس واقعہ افک پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور معاملے کو مزید بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور اس کے گھٹیا پن کو خوب واضح کیا۔ حالانکہ علی اور فاطمہ رضی ا للہ عنہما کے متعلق یہ بدگمانی کی انتہا ہے کہ وہ دونوں ایسے معاملے پر خوش ہوں جس نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غم زدہ کر دیا۔ پھر مصنف اپنی ہفوات جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے: اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سسر (ابوبکر رضی اللہ عنہ ) کا دروازہ (اپنے مرض الموت میں ) بند کروا دیا اور اپنے داماد (سیّدنا علی علیہ السلام ) کا دروازہ کھلا رہنے دیا۔ یاد رہے! تاریخ کا ہر چھوٹا بڑا عالم بخوبی جانتا ہے کہ یہ تحریر باطل ہے اور متواتر اخبار کی مخالف ہے۔ جب سارے کلام کا انداز یہی ہو تو دراصل وہ اپنے قائل کی جہالت اور کم علمی کا انکشاف کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے یہ کہنے پر تعجب کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ جب فاطمہ فوت ہوئیں تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویاں بنو ہاشم کے ساتھ تعزیت کرنے کے لیے آئیں ۔ لیکن وہ نہیں آئیں اور اپنے مرض کا بہانہ کیا اور علی رضی اللہ عنہ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ایسی باتیں بتائی گئیں جو (فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موت پر) ان کی خوشی پر دلالت کرتی تھیں ۔ یہ قول بھی دیگر کلام کی طرح نقلی، عقلی اور دینی امانت کے لحاظ سے مردود ہے۔ کسی سند کے ذریعے یہ ثابت نہیں ۔[1]
Flag Counter