Maktaba Wahhabi

422 - 677
امام نسائی رحمہ اللہ نے کتاب ’’الضعفاء‘‘ میں کہا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے میں چار راوی مشہور و معروف ہیں : ان میں سے ایک مدینہ میں واقدی ہے .... الخ‘‘ ابن عدی[1] رحمہ اللہ نے لکھا: ’’اس کی احادیث غیر محفوظ ہیں اور اصل بلا ء وہ خود ہے۔‘‘ امام ابن المدینی رحمہ اللہ نے کہا: ’’اس کے پاس ۲۰ ہزار احادیث ہیں یعنی جن کی کوئی اصل نہیں اور اس نے دوسرے مقام پر لکھا: وہ روایت کرنے کا اہل ہی نہیں ۔ ابراہیم بن یحییٰ کذاب ہے لیکن وہ میرے نزدیک واقدی سے قدرے بہتر ہے۔ امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے لکھا: ’’میں اس کی روایات نہیں لکھتا اور نہ ہی اس کی طرف منسوب کوئی حدیث روایت کرتا ہوں ، مجھے یقین ہے کہ وہ احادیث گھڑتا تھا۔‘‘[2] درج بالا بحث سے مذکورہ دونوں روایات کا بطلان ثابت ہو گیا۔ و الحمد للّٰہ علی ذلک۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ شیعہ خود اپنی کتابوں میں ایسی روایات لاتے ہیں جن سے اس روایت کا تناقض ثابت ہوتا ہے۔ جیسے فضل بن شاذان نے مقاتل بن حیان سے روایت کی ہے کہ میری پھوپھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھی۔ اس نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ حسین علیہ السلام دروازے پر آئے اور اجازت طلب کی۔ جب وہ اندر آئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں اَہْلًا وَ سَہْلًا وَ مَرْحَبا کہا اور انھیں اپنے پہلو میں بٹھایا تو حسین رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: بے شک میرا باپ تیرے لیے کہتا تھا: تو اپنے اس گھر میں چلی جا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے ٹھہرنے کا حکم دیا تھا اور اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے اپنے پیچھے چھوڑا تھا۔ بصورت دیگر میں تیری طرف وہ کلمات (طلاق) بھیج دوں گا۔[3] اہل تشیع یہاں کلمات سے مراد یہ لیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے خلاف علی رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی، لہٰذا اس کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے طلاق دے دیں اور اسے امہات المومنین کی جماعت سے باہر نکال دیں ۔ حالانکہ یہ مفہوم بذات خود ان کی تردید
Flag Counter