Maktaba Wahhabi

420 - 677
۳۔اگر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے حضرت حسن کو دفنانے کی ممانعت ثابت بھی ہو جائے تو اسے اجازت دینے کے بعد ممانعت پر محمول کیا جائے گا۔ کیونکہ جب انھوں نے بنو امیہ کی عدم رضامندی دیکھی اور دیکھا کہ وہ بنو ہاشم کے خلاف لڑنے مرنے پر تیار ہیں تو انھوں نے فتنہ و فساد کو ختم کرنے کی نیت سے سابقہ اجازت منسوخ کر دی۔ اس ڈر سے کہ ناحق مسلمانوں کا خون بہے گا نہ کہ انھوں نے ابتدا ہی سے ممانعت کر دی تھی۔ درج بالا بحث درج ذیل روایت سے سو فیصد مطابقت رکھتی ہے۔ ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ حسن کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انھوں نے وصیت کی تم مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کرنا، ہاں ! اگر تمھیں اس سے کوئی نیا فساد پھیلنے کا خوف ہو تو پھر مجھے میری امی جان کے پہلو میں دفن کرنا اور وہ فوت ہو گئے۔ جب لوگوں نے ان کی وصیت کے مطابق انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دفن کرنے کا پروگرام بنایا تو اس وقت بنو امیہ کی طرف سے مقرر کردہ مدینہ کے گورنر مروان بن حکم نے انھیں وہاں دفنانے سے انکار کر دیا اور کہا: عثمان تو بقیع سے باہر ایک باغیچے[1] میں دفن کیے جائیں جبکہ حسن کو یہاں دفن کیا جائے۔ تو بنو ہاشم اپنے حلیفوں اور حامیوں کے ساتھ مل کر اپنی ضد پر اڑ گئے اور بنو امیہ بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت ان کو اپنے ارادوں سے باز رکھنے پر تل گئے۔ تب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مروان کو سمجھانے کے انداز میں کہا: اے مروان! کیا تم حسن کو اس جگہ دفنانے سے منع کرتے ہو حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں بھائیوں کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا: وہ دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہتھیاروں سے لیس مسلح جنگجو دیکھے اور ان کے درمیان فتنہ و فساد پھیلنے کا ڈر پیدا ہو گیا اور انھیں خون بہائے جانے کا منظر دکھائی دینے لگا تو کہنے لگیں : یہ گھر میرا ہے اور میں کسی کو یہاں دفنانے کی اجازت نہیں دیتی۔ چنانچہ محمد بن علی نے اپنے بھائی حسین سے کہا: بھائی جان! اگر وہ وصیت کرتے تو ہم انھیں یہیں دفناتے یا ان کو دفنانے سے پہلے ہم مر جاتے۔ لیکن انھوں نے استثنا خود ہی پیدا کر دی اور کہا اگر تمھیں فتنہ کا ڈر ہو تو مجھے میری امی جان کے پاس دفن کر دینا۔ اب جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں اس سے بڑا اور فتنہ کون سا ہو گا؟ تب حسن رضی اللہ عنہ کو جنت البقیع میں دفنایا گیا۔ابوہریرہ اور
Flag Counter