Maktaba Wahhabi

363 - 677
یہ حدیث اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ سیّدنا علی و فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے رضی اللہ عنہم دیگر لوگوں کی نسبت اہل بیت میں شمولیت کے زیادہ مستحق ہیں ۔[1] چونکہ یہ حدیث سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرویات میں سے ہے اس لیے اس سے یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا دل اہل بیت کی محبت و قدر و منزلت سے کس قدر سرشار تھا۔ ان کے متعلق ہر حدیث مکمل خلوص اور صدق دل سے روایت کی۔ اسی طرح وہ حدیث کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ چمٹا نے اور اس کے ساتھ محبت کی گواہی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والی حدیث بھی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر اپنے ساتھ لپٹا لیتے اور یوں دعا فرماتے: ((اَللّٰہُمَّ اِنَّ ہٰذَا ابْنِیْ فَأَحِبَّہُ وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُ)) [2] ’’اے اللہ! بے شک میں اپنے اس بیٹے کے ساتھ محبت کرتا ہوں پس تو بھی اس کے ساتھ محبت کر اور جو بھی اس کے ساتھ محبت کرے تو اس کے ساتھ بھی محبت کر۔‘‘ جب سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے اجازت طلب کی کہ وہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر میں ان کے نانا کے ساتھ دفنانے دیں ۔ تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے منظور ہے اور وہ اس سے زیادہ تکریم کے لائق ہیں ۔ جب یہ بات حاکم مدینہ مروان بن عبدالملک کو معلوم ہوئی تو اس نے کہا، وہ دونوں جھوٹے ہیں ۔(معاذ اللہ) اللہ کی قسم! اسے وہاں کبھی دفن نہیں کیا جائے گا۔[3] درج بالا حدیث سے متعدد فوائد علمیہ حاصل ہوتے ہیں : ۱۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں نواسوں کی کس قدر محبت و قدر و منزلت تھی۔ ۲۔ان سب کے آپس میں کس قدر خوش گوار تعلقات تھے۔
Flag Counter