Maktaba Wahhabi

287 - 677
((مَنْ ظَلَمَ قِیْدَ شِبْرٍ مِّنْ اَرْضٍ طُوِّقَہٗ مِنْ سَبْعِ اَرَضِیْنَ)) [1] ’’جس نے ایک بالشت کے برابر زمین میں کسی پر ظلم کیا اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تلاوت قرآن نہایت احسن انداز میں کرتی تھیں اور اکثر اوقات تلاوت کرتی تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بار بار دہراتیں : ((مَثَلُ الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَہُوَ حَافِظٌ لَہُ، مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ، وَمَثَلُ الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ وَ ہُوَ یَتَعَاہَدُہُ، وَہُوَ عَلَیْہِ شَدِیدٌ فَلَہُ أَجْرَانِ۔)) ’’اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ ہو تو وہ معزز فرشتوں کے ساتھ ہو گا اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کی پابندی کرتا ہے اگرچہ وہ اس پر مشکل ہو تو اسے دو اجر ملیں گے۔‘‘ مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں : ((اَلْمَاہِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ، وَالَّذِیْ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیَتَتَعْتَعُ فِیہِ، وَہُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ لَہُ أَجْرَانِ۔))[2] ’’قرآن کا ماہر معزز اور اعلیٰ فرشتوں کے ساتھ ہو گا اور جو قرآن پڑھتا ہو اور ہکلاتا ہو اور وہ اس پر مشکل ہو تو اسے دو اجر ملیں گے۔‘‘ جب بھی کسی کو مسلمانوں کے کسی معاملے کی ذمہ داری ملتی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسے ضرور مواعظہ حسنہ سناتیں اور اسے مسؤلیت کی اہمیت بتلاتیں ۔عبدالرحمن بن شماسہ سے روایت ہے کہ میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کوئی مسئلہ پوچھنے آیا تو آپ نے فرمایا: ’’تم کہاں سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں مصر سے آیا ہوں ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تمہارا گورنر تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے؟ میں نے کہا: ہمیں اس میں کوئی عیب نظر نہیں آتا۔ اگر ہم میں سے کسی کا اونٹ مر جائے تو وہ اسے اونٹ دے دیتا ہے اور جس کا غلام مر جائے اسے غلام دے دیتا ہے اور جو نان و نفقہ کا محتاج ہو اسے نان و نفقہ دے دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس کا میرے بھائی محمد بن ابی بکر سے کیا جانے والا سلوک حق بات کہنے سے نہیں
Flag Counter