Maktaba Wahhabi

207 - 677
سے محو ہو جاؤں ۔‘‘[1] یہاں ایک عجیب نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ جیسے قرآن کریم میں سیّدہ مریم بنت عمران رحمہ اللہ کی حکایت ﴿ يَالَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا ﴾ (مریم: ۲۳)’’اے کاش! میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھولی بھلائی ہوتی۔‘‘ بیان ہوئی ہے ، اسی طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی کہا۔ یہ مشابہت اچانک پیدا نہیں ہوئی،بلکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیّدہ مریم رحمہ اللہ کے درمیان بہت بڑی مشابہت ہے۔ مثلاً سیّدہ مریم رحمہ اللہ کا لقب صدیقہ ہے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اپنے قول و فعل اور بزبان رحمن صدیقہ ہیں اور یہاں سے ہمارے لیے ایک اور نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ان دونوں خواتین کی آزمائش میں مشابہت کیوں ہوئی؟ مریم رحمہ اللہ پر بھی بہتان تراشوں نے الزام لگایا اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بھی بہتان تراشوں نے الزام لگایا۔ سبحان اللہ! مقدس کرداروں میں کتنے عجائب پنہاں ہیں ۔[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کس قدر متواضع تھیں اس کا اندازہ اس وصیت سے ہوتا ہے جو انھوں نے اپنے مرض الموت میں عبداللہ بن زبیر رضی ا للہ عنہما کو کی تھی۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عبداللہ بن زبیر رضی ا للہ عنہما سے فرمایا: تم مجھے ان کے ساتھ (میرے کمرے میں ) نہ دفنانا بلکہ میری بہنوں (دیگر امہات المومنین) کے ساتھ مجھے بقیع والے عام قبرستان میں دفن کرنا۔ میں نہیں چاہتی کہ (یہاں دفن ہو کر) ہمیشہ میری مدح و ثنا کی جائے۔[3] گویا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات انتہائی ناپسند تھی کہ ان کے بارے میں کہا جائے گا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدفون ہیں ، اس عبارت میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے نفس کو حقیر ثابت کرتے ہوئے تواضع و انکساری کا اظہار فرمایا۔[4]
Flag Counter