Maktaba Wahhabi

160 - 677
دوران سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے جب وہ ہودج[1] (کجاوے) میں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ انھوں نے کہا: اے ام المومنین! کیا آپ کو یاد ہے کہ جب سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے تو میں مکہ میں آپ کے پاس آیا تھا اور پوچھا تھا کہ آپ مجھے کیا حکم دیں گی تو آپ نے کہا تھا: تو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہو جا(یعنی ان کی بیعت کر لے)۔ پس وہ یہ سن کر خاموش ہو گئیں ۔ سیّدہ عائشہ، طلحہ، زبیر اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہم کے درمیان کچھ اختلاف مشہور ہے اسے بنیاد بنا کر ہر زمانے کے روافض، صحابہ پر سب و شتم کرتے ہیں ۔ روافض کے تمام شبہات کا علمی ردّ ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں جنگ جمل کے ضمن میں تفصیلاً آئے گا۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں خوارج کا فتنہ طاہر ہوا۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کی سرکوبی کے لیے متعدد مہمات بھیجیں ۔ چونکہ اس وقت عراق و مصر کے باشندے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی دشنام طرازیوں کا نشانہ بناتے تھے تو ابن ہشام سیّدنا علی رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع کرتے اور خوارج سیّدنا عثمان اور سیّدنا علی رضی ا للہ عنہما دونوں پر لعن طعن کرتے تھے۔ جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کے بارے میں پتا چلا تو فرمایا: ’’ان لوگوں کو حکم دیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے لیے استغفار کرو تو انھوں نے گالیاں دیں ۔‘‘[2] امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے لیے مغفرت طلب کریں اور قاضی عیاض نے کہا: یہ اس وقت کی بات ہے جب انھوں نے یہ سنا کہ اہل مصر عثمان رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کرتے ہیں اور شام والے علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کرتے ہیں اور حروری (خارجی) سب پر سب و شتم کرتے ہیں ۔ خوارج جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے علیحدہ ہوئے تو وہ حروراء نامی بستی میں رہنے لگے، اس مناسبت سے انھیں حروری کہا جاتا تھا۔ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے پوچھا: جب ہم طہر میں داخل ہو جائیں تو ہم روزوں کی قضا دیتی ہیں لیکن نماز کی قضا نہیں دیتیں تو انھوں نے فرمایا: ’’کیا تو حروریہ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہمیں حیض آتا تو آپ ہمیں ایام حیض میں قضاء ہونے والی نمازوں کی ادائیگی کا حکم نہیں دیا کرتے تھے۔‘‘ یا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایا:
Flag Counter