Maktaba Wahhabi

152 - 677
سے ہو تو وہ ان کے متعلق ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی پوچھا کرتے۔ چنانچہ محمود بن لبید[1] رحمہ اللہ سے روایت ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج مطہرات رضی ا للہ عنہن کو بکثرت احادیث یاد تھیں تاہم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اس معاملے میں بے مثال تھیں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عمر و عثمان رضی ا للہ عنہما کے عہد خلافت سے تاحیات فتویٰ دیتی رہیں اور سیّدنا عمر اور عثمان رضی ا للہ عنہما کے ادوار خلافت کے بعد بھی اکابرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کثرت سے مسائل لے کر آتے اور ان سے استفادہ کرتے۔‘‘[2] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ امہات المومنین کا بہت خیال رکھتے ، کثرت سے ان کی خبر گیری کرتے اور جب انھوں نے خیبر کے محاصل تقسیم کیے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی ا للہ عنہن کو اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو خیبر کی زمین سے کچھ مخصوص کر دیا جائے اور اگر وہ چاہیں ہر سال اپنے لیے سو سو بوری پھل لے لیں ۔ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کھجوریں لینے کا انتخاب کیا۔[3] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ امہات المومنین کا اس قدر احترام کرتے اور ان کی اس قدر فکر ہوتی کہ جب امہات المومنین نے عمر رضی اللہ عنہ سے حج پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ سیّدنا عثمان بن عفان اور سیّدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی ا للہ عنہما کو بھیجا اور انھیں حکم دیا کہ ’’ان دونوں میں سے ایک ان کی سواریوں کے آگے چلے اور ایک ان کے پیچھے چلے اور ان دونوں کے علاوہ کوئی اور ان کی سواریوں کو نہ ہانکے۔‘‘ انھوں نے حکم دیا کہ ’’جب وہ پڑاؤ کریں تو تم ان کا پڑاؤ کسی سرسبز گھاٹی میں ڈالنا۔ پھر تم دونوں گھاٹی کے راستے پر پہرہ دینا۔ ان کے پاس کوئی ہرگز نہ جائے۔‘‘ پھر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو حکم دیا کہ ’’جب وہ طواف کرنے لگیں تو عورتوں کے علاوہ کوئی مرد ان کے ساتھ طواف نہ کرے۔‘‘ عروہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ہمارے حصوں کے مطابق بھیڑ، بکریاں اور اونٹ ہماری طرف بھیجتے تھے۔‘‘[4]
Flag Counter