Maktaba Wahhabi

31 - 69
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں۔قرآن کریم میں صاحب عقل ان کو قرار دیا گیا ہے، جو اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اعمال صالحہ اختیار کرتے ہیں۔ جن کو قرآنی اصطلاح میں اولو الالباب کہا گیا ہے۔ پھر سورة آل عمران کی آیت۱۹۱،۱۹۰ اور سورة رعد کی آیات ۱۹تا ۲۴ بمع ترجمہ نقل کی ہیں۔اور آگے چل کر لکھا ہے کہ بخاری شریف کے حوالے سے ثابت ہے کہ ہماری ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا علم و فہم کا سر چشمہ اور مرجع صحابہ تھیں…کیا وہ (معاذاللہ) کم عقل ہو سکتیں تھیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ (صفحہ:۷۸ تا ۸۴)۔ تحقیقی نظر: موصوف بات کو سمجھتے ہی نہیں ہیں، اس لیے بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔ کسی بھی صحیح حدیث میں عورت کو (مطلقاً) کم عقل قرار نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی اس سے مشورہ کرنے سے منع کیا گیا ہے اور نہ ہی اسے جانور کی طرح ہانکنے کا حکم ہے۔موصوف فقط اپنی چرب زبانی ہی سے جو چاہتے ہیں حدیث پرالزام دھر دیتے ہیں۔ اللہ انھیں ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین۔ موصوف نے جس حدیث پر ڈھکے چھپے لفظوں میں اعتراض کیا ہے وہ حدیث صحیح بخاری شریف میں کئی جگہ وارد ہوئی ہے اور حدیث میں عورتوں کو ناقص العقل کہا گیا ہے نہ کہ بیوقوف وغیرہ اور یہ بھی یادرہے کہ یہ بھی مردوں کے مقابلے میں کہا گیا ہے اور اسکی وضاحت بھی صحیح بخاری ہی میں اس طرح ہے کہ دو عورتوں کی شہادت کو ایک مرد کی شہادت کے برابر قرار دیا گیا ہے اور یہی دلیل ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں ناقص العقل ہے۔دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے اس بات کا ذکر سورة بقرہ۲۸۲ میں بھی کیا گیا ہے۔ موصوف کی پیش کردہ آیات کسی بھی طرح اس حدیث کی مخالفت نہیں کرتیں۔ لہٰذا اس حدیث کوکسی بھی طرح من گھڑت اور جھوٹی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فافھم۔ جہاں تک موصوف کا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو عاقلہ وفاہمہ لکھنا ہے، تو اس سے کسی کو بھی انکارنہیں۔ مگر یاد رہے یہ فضیلت صحیح بخاری کی حدیث میں ہی وارد ہوئی ہے اور موصوف صحیح بخاری پر بھی معترض رہتے ہیں اس صورت میں جناب کا یہ حدیث بطور حجت پیش کرنا کیسا ہو گا؟۔
Flag Counter