Maktaba Wahhabi

16 - 69
گذرچکاہے ۔ موصوف کا زور صرف اس بات پر ہے کہ عورت سب ہی کے لئے معیارِ ایمان و مثالِ ایمان ہے جبکہ یہاں خرابی بگاڑ اور فساد کی وجہ یہی ہے کہ خدا کا مطلوب کچھ اور ہے جناب مدنی صاحب کا مطلوب کچھ اورہے اور یہ مطلوب بہرحال اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہے۔کیا ایک خاص قصے سے عام حکم پر دلیل لی جاسکتی ہے؟ موصوف اس کی تائید کس طرح کریں گے؟ نیز قرآن مجید میں معیار ایمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قرار دیاگیا ہے ۔ ان آمنوا بمثل ما آمنتم بہ (اگر تم ان کی طرح ایمان لے آوٴ تو کامیاب و ہدایت یافتہ ہوجاوٴگے۔) اب کیا یہ واضح نہیں ہے کہ یہ صیغہ مذکر مردوں کو فوقیت دیتا ہے اور اگر اس میں عورتیں بھی شامل ہیں تو ازروئے مرد کی فرع ہونے کے اصلاً نہیں ۔ فافھم۔ ساتویں فضیلت کے تحت موصوف سورة بقرہ کی آیت ۲۴۰ بمعہ ترجمہ کے لکھتے ہیں اور پھر تفسیر بالرائے اس طرح کرتے ہیں: سورة بقرہ (آیت ۲۴۱۔ ۲۴۰) جس میں اللہ تعالیٰ نے بیوہ اور مطلقہ عورت کے لئے ایک سال کاخرچہ شوہر کے ذمہ لازم قرار دیا ہے جو کہ اس کے مال میں سے وراثت تقسیم کرنے سے پہلے دیا جائے گا اور جو کہ وراثت سے الگ ہوگا۔ قرآن کا یہ حکم عورت کی نصرت اور تائید کے لئے تھا تاکہ عورت کو ہرممکنہ مشقت اور تکلیف سے بچایا جائے۔ لیکن بعد میں آنے والے مسلمانوں نے قرآن کے اس حکم کوکالعدم قراردیا اور اس کی جگہ ظلم و استبداد کے احکامات جاری کردیئے، جس کا مقصد عورت کو مجبوروبے بس و لاچار بنانا ہے۔ تحقیقی نظر: موصوف اگر تفسیر بالرائے کو واقعتا ہی ناجائز سمجھتے، تو کبھی بھی اس کا ارتکاب نہ کرتے مگر ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ کی طرح مذبذ بین بین ذلک لا الی ھٰوٴلاء ولا الی ھوٴلاء کا مصداق دکھائی دیتے ہیں۔ جمہور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موصوف کی ذکر کردہ سورة بقرہ کی آیت ۲۴۰ منسوخ
Flag Counter