Maktaba Wahhabi

14 - 69
جہاں تک تعلق ہے سورة بقرہ کی آیت ۳۰ سے خلافت المرأة کا تو یہ بھی جناب کی رائے پر مبنی اوہام ہیں، جس پر کوئی بھی دلیل قرآن و سنت اور فہم سلف صالحین سے جناب کے پاس نہیں ہے۔ نیز موصوف نے افتراء علی اللّٰه کا بھی ارتکاب کیا ہے جو شرک سے بھی بڑا گناہ ہے۔کسی بھی تفسیر مثلاً (تفسیر قرطبی، ابن کثیر، زادالمسیر، فتح القدیر وغیرہ) کو اٹھا کر دیکھ لیں، موصوف کابیان کردہ مفہوم کسی نے بھی بیان نہیں کیا۔ بلکہ لکھا ہے کہ یہاں خلیفہ سے مراد سیدنا آدم علیہ السلام ہیں۔کیونکہ اس کے بعد آدم علیہ السلام کا ذکر بالصراحت ہے۔ البتہ چونکہ آپ علیہ السلام ابو البشر ہیں، لہٰذاسب آپ کے بعد ہی آئیں گے تو آپ کے بیٹے جو نبوت سے (آپ کی طرح) سرفراز ہوں گے وہ خلیفہ فی الارض قرار پائیں گے۔اب ظاہر ہے نبوت و رسالت تو صرف اور صرف مردوں کے ساتھ ہی خاص ہے۔ مگر جو شخص عورتوں کی محبت میں اندھا ہو جائے اسے قرآنی آیات بھی نظر نہیں آتیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالااًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ (سورة یوسف) سورۂ نمل کی آیت بھی دیکھیں۔ مزید ارشاد ہوتا ہے: وَ مَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رِجَالااًا نُّوْحِیْ اِلَیْہِمْ (سورة انبیاء) لہٰذا سیدنا آدم علیہ السلام کی نبوت سے آراستہ خلافت میں عورتوں کو شامل کرنا تحکم و سینہ زوری کے سوااور کچھ نہیں۔ کیا موصوف بتائیں گے کہ دنیا کی اس اسلامی تاریخ میں کبھی عورت کو کسی قابلِ ذکر عہدہ و منصب یا خلافت کی مسند پر متمکن کیاگیا ہو؟ ولیس الذکر کالانثی (مرد عورت کی طرح نہیں ہوتا) خلیفہ وقت نہ صرف امام سیادت و سیاست ہوتاہے بلکہ وہ مصلیٰ کا امام بھی ہوتا ہے۔ تو کیا عورت بھی مردوں کی امامت کی حقدار ہو گی؟ (یاد رہے یہ نظریہ غامدی صاحب کا ہے جو بلا اصول و برھان ہے)۔
Flag Counter