Maktaba Wahhabi

4 - 222
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس حدیث پرتعلیق قائم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:صحابیات کو اس بات کاعلم تھا کہ عورت کیلئے اپنے پاؤں ڈھانپنا ضروری ہے،حالانکہ پاؤں، چہرے اور ہاتھوں کی بنسبت کم فتنہ کا باعث ہوتے ہیں،توادنیٰ چیز کا حکم بیان کرکے، اس سے اعلیٰ چیز کے حکم کی طرف توجہ مبذول کی گئی ہے،اگر چہرے اورہاتھوں کا پردہ ضروری نہیں ہے تو شریعت کی حکمت متناقض ومتضاد معلوم ہوتی ہے کہ جوچیز باعثِ فتنہ نہیں ہے اسے توڈھانپنے کا حکم دے دیا اور جوچیز بہت زیادہ موجبِ فتنہ قرار پاتی ہے اسے کھلا رکھنے کی اجازت دے دی۔؟؟؟ ہم ایک اورحدیث پر غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عید کی نماز اداکرنے کیلئے عیدگاہ حاضرہونے کا حکم دیا،اوریہاں تک تاکید فرمائی کہ جوعورت شرعی عذر کی بناء پر نماز ادانہیں کرسکتی، وہ بھی ضرور حاضرہو،نماز نہ پڑھے لیکن مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوجائے۔ خواتین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:ہم میں سے کچھ عورتیں ایسی ہیں جن کے پاس جلباب (یعنی وہ اوڑھنی جو عورت کے جسم کو ڈھانپ لیتی ہے)نہیں ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:چاہئے کہ اس کی بہن یا سہیلی اسے اپنی اوڑھنی دے دے۔ (بخاری ومسلم) (بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس کی بہن کے پاس ایک ہی اوڑھنی ہو تو دونوں اسی ایک اوڑھنی میں لپٹ کر آجائیں۔) اس حدیث سے ثابت ہورہا ہے کہ صحابیات جلباب (اوڑھنی)کے ساتھ گھروں سے باہر نکلا کرتی تھیں،اوراگر اوڑھنی میسر نہ ہوتی توگھروں سے نہ نکلتیں، اسی لئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عید گاہ حاضر ہونے کا حکم دیا توعورتوں نے اوڑھنی نہ ہونے کااشکال پیش کردیا۔جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایاکہ کوئی حرج نہیں جلباب کے بغیر ہی آجاؤ۔(حاشا وکلا)
Flag Counter