علامہ آلوسی نے (الزواجر)میں ذکرکیاہے:امام شافعی رحمہ اللہ کامذہب یہ ہے کہ عورت کاچہرہ اورہاتھ پردہ ہیں،اگرچہ یہ دونوں چیزیں نماز کے اندر پردہ نہیں ہیں۔[1] پچھلے صفحات میں امام الحرمین اورابن رسلان کاقول ذکرہوچکا کہ عورت کا کھلے چہرے سے نکلنا ممنوع ہے،جس پر تمام مسلمانوںکا اتفاق ہے۔ ابن المنذر فرماتے ہیں:مسلمانوں کااجماع ہے کہ عورت اپنے پورے بدن پر سلے ہوئے کپڑے پہنے گی،نیز موزے بھی۔اس کے علاوہ اپنا سر اورپورے بال بھی چھپاکررکھے گی،البتہ چہرے پرہلکے اندازسے کپڑا ڈالے رکھے گی،جواسے اجنبی مردوں کی نگاہوں سے چھپائے رکھے۔[2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عورت کے نمازکے اندر پردے اورعام مواقع میں پردے کافرق ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:عورت اجنبی مردوںکی نگاہوں کے تعلق سے ساری کی ساری پردہ ہے۔[3] امام ابن القیم رحمہ اللہ کا اس سلسلہ میں مکمل کلام پیش خدمت ہے: ایک شبہ یوں پیداہوتاہے کہ شریعت نے آزاد عورتوں کیلئے،اجنبی مردوں سے اپنے چہرے کوڈھانپے رکھنا مشروع قرار دیا ہے،جبکہ لونڈیوں کیلئے ضروری نہیں بتلایا۔ اوریہ معاملہ بھی ان لونڈیوں کیلئے ہے جو خدمت کے مقصدپر مامورہوں،لیکن وہ لونڈیاں جنہیں ہم خوابی کیلئے چناجاتاہے،ان کیلئے عرف وعادت،انہیں پردے میں رکھنا ہے،اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کہاں اجازت دی ہے کہ وہ بازاروں، راستوں اور لوگوں کے اکٹھ کے مقامات پر کھلے چہرے کے ساتھ آئیں،اورمردوں کو |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |