مداخلت کے، بالعموم ان تدابیرہی سے اپنا رویہ درست کرلیتی ہے۔ لیکن اگر اس طرح مسئلہ حل نہ ہو تو دوسرا حل۔ چوتھی تدبیر کی صورت میں۔ یہ بیان فرمادیا کہ دوحَکم(ثالث) ان کافیصلہ کریں ایک میاں کے خاندان سے ہو، دوسرا بیوی کےخاندان سے۔ ساتھ ہی اللہ نے بیان فرمادیا کہ دونوں ثالث اگرصلح کرانے میں مخلص ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور مصالحت ومفاہمت کی صورت پیدا فرمادے گا۔ (النساء:35)بصورت دیگر آخری چارۂ کار کے طو ر پر پھر ان کے درمیان جدائی کرادی جائے گی۔ علماء نے اس کو توکیل بالفرقۃ کےنام سے موسوم کیا ہے۔ یعنی اگر یہ ثالث صلح کرانے میں ناکام رہیں تو پھر یہ بطور وکیل ایک دوسرے کی جدائی کا فیصلہ کردیں۔ یہ فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہوجائے گا۔
۵۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو طلاق کاحق دیا ہے۔ اور یہ حق پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ ہےجس میں وہ رجوع کرسکتا ہے۔ اس حق کو بھی صرف اسی لئے محدود کیاگیا ہے کہ کوئی مرد عورت پرظلم نہ کرسکے۔ ورنہ اسلام سے پہلے یہ حق غیرمحدود تھا جس کی وجہ سے ایک شخص اگر چاہتا کہ وہ عورت کو نہ صحیح طریقے سے آباد کرے اور نہ اسے آزاد کرے کہ وہ کسی اور جگہ شادی کرلے، تو وہ یہ کرتا تھا کہ طلاق دیتا اور عدت گزارنے سے پہلے رجوع کرلیتا۔ یہ سلسلۂ ظلم وہ جب تک چاہتا، جاری رکھتا تھا، اللہ تعالیٰ نے حق طلاق کی حدبندی کرکے اس ظلم کاانسدا د کردیا۔
دوسراحکم یہ دیا کہ طلاق صرف ایک ہی دی جائے، وہ بھی اشتعال اورغصے میں نہیں کہ ذرا ساجھگڑا ہوا اور طلاق دے دی۔ بلکہ اول تو طلاق کوسخت ناپسندیدہ عمل قرار دیا، تا ہم بعض حالات میں چونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا، اس لئے اس کی اجازت بھی عنایت
|