کہا جاتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا ذکر سورۃ البقرۃ آیت: 229 میں کیا ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض عورتوں کی خواہش پر ان کو خلع کا حق دیا ہے، یعنی ان کو ان کے ناپسندیدہ خاوند سے، حق مہر کی واپسی کی شرط پر، خاوند سے طلاق دلوائی ہے۔ جیسے حدیث میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
ملاحظہ ہو، صحیح البخاری، الطلاق، باب الخلع، وکیف الطلاق فیہ، حدیث: 5273-5275
اس کی تفصیل، نیزعورت کن کن صورتوں میں شرعاً خلع حاصل کرنے کاحق رکھتی ہے۔ ہماری کتاب ’’خواتین کے امتیازی مسائل‘‘، ص : 321-232میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
تاہم جیسے کسی معقول وجہ کے بغیر مرد کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ طلاق کا حق استعمال کرے، اسی طرح عورت کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ محض ذائقے کی تبدیلی کے لیے، معقول سبب کے بغیر، خلع کا مطالبہ کرے۔ اگر کوئی عورت ایسا کرے گی تو اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وعید بیان فرمائی ہے۔ آپ نے فرمایا:
((اَیُّمَا امْرَأَۃٍ سَأَلَتْ زَوْجَھَا طَلَاقًا مِنْ غَیْرِ بَأسٍ، فَحَرامٌ عَلَیْھَا رَائِحَۃُ الْجَنَّۃِ)) [1]
’’جس عورت نے بغیر کسی وجہ سے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔ ‘‘
|