Maktaba Wahhabi

271 - 347
صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لن یفلح قوم ولوامرھم امرأۃ)) ’’وہ قوم ہر گزفلاح (کامیابی) نہیں پائے گی جس نے اپنے (دنیوی) امور ومعاملات کسی عورت کے سپرد کردیے‘‘ مرد کی اس سربراہی کا تعلق ملک وقوم اور گھر کے معاملات چلانے اور ان کا انتظام کرنے سے ہے ورنہ جہاں تک عورت کے بہ حیثیت انسان ہونے کے، انسانی حقوق کا معاملہ ہے، ان میں وہ اورمرد برابر ہے۔ عورت کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ وہ مرد (خاوند) کے سارے انسانی حقوق ادا کرے۔ اسی طرح مرد کے لیے ضروری ہےکہ وہ عورت (بیوی) کے سارے انسانی حقوق ادا کرے۔ اسی لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْہِنَّ دَرَجَۃٌ﴾ [البقرۃ:228] ’’اور عورتوں کے بھی معروف کے ساتھ ویسے ہی حق ہیں جیسے ان (عورتوں ) پر مردوں کے حق ہیں البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ حاصل ہے۔ ‘‘ اس آیت میں بھی اللہ نے جہاں مرد اور عورت (میاں بیوی) کے انسانی حقوق میں یکسانیت کا ذکر فرمایا ہے وہاں ساتھ ہی مرد کی فضیلت کو بھی بیان فرمادیا ہے اور یہ وہی فضیلت اور برتری ہےجس کاتعلق مرد کے حاکمانہ اختیارات سے ہے۔ جیسے فطری قوتوں میں، جہاد کی اجازت میں، میراث کے دوگنا ہونے میں، قوّامیت وحاکمیت میں اور حقِ طلاق ورجوع (وغیرہ) میں۔ یہ ساری خوبیاں مرد کو دی گئی ہیں، عورت کو نہیں۔ یہ امتیازات مرد کے ہیں، عورت کے نہیں۔ یاقرآن کریم کے الفاظ میں یہ’’درجہ‘‘ مرد
Flag Counter