چار کا کھانا ہو تو پانچواں چھٹا ان میں سے لے جائے۔ باقی جو رہ جاتے، انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے گھر لے جاتے، اور جو کچھ موجود ہوتا، اس میں سے ان کو کھلاتے۔ [1]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جوخود بھی اپنے آپ کو مساکین صفہ میں شمار کرتے ہیں، اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس میں ان کی اپنی معاشی کسمپرسی کا حال بھی ہے اور دیگر اہل صفہ کی تنگ دستی کا تذکرہ بھی۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا جس طرح خیال رکھتے تھے، اس کی وضاحت بھی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، یقیناً میں بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ کےبل زمین پر لیٹ جاتا اور بھوک ہی کی وجہ سے میں اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا، یہ پورا واقعہ آگے آئے گا، اس لیے یہاں صرف اشارہ ہی کیا جا رہا ہے۔ ‘‘ [2]
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((إِنِّی لاوَّلُ الْعَرَبِ رَمٰی بِسَہْمٍ فِی سَبِیلِ اللّٰہ وَرَأَیْتُنَا نَغْزُو وَمَالَنَا طَعَامٌ إِلَّا وَرَقُ الْحُبْلَۃِ وَھذَا السَّمْرُ وَإِنَّ أَحَدَنَا لَیَضَعُ کَمَا تَضَعُ الشَّاۃُ مَالَہُ خِلْطٌ))
’’عربوں میں میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیز اندازی کی۔ اور ہم نے اپنے آپ کو دیکھا کہ ہم جہاد کرتے تھے اور ہمارے پاس کھانے کے لیے جھاؤ کے پتے اور اس ببول کے درخت کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا، اور ہمارا ایک اس طرح مینگنیاں کرتا تھا جیسے بکری کرتی ہے، وہ ملی ہوئی نہ ہوتیں (یہ تنگیٔ گزران کی طرف اشارہ ہے۔ )‘‘ [3]
|