راست پر رکھنے کے لیے آخری چارۂ کار کے طور پر زدو کوب کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے تاکہ گھر میں مرد کی قوامیت (حاکمیت) بھی برقرار رہے اور گھر کا نظم و نسق بھی انتشار سے محفوظ رہے۔
لیکن مارنے کا یہ حق غیر محدود نہیں ہے لیکن چونکہ ناگریز حالات میں بطور علاج اس کی اجازت ہے اس لیے یہ مار و حشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو، بلکہ علاج کی حد تک ہلکی مار ہو جس سے اس کو شدید چوٹ نہ آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا:
((وَلَکُمْ عَلَیْہِنَّ أَنْ لَا یُؤْطِئَنَّ فُرُشَکُمْ أَحَدًا تَکْرَھُونَہُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوھُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ)) [1]
’’تمہارا عورتوں پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستروں پر ایسے کسی شخص کو آنے کی اجازت نہ دیں جس کو تم ناپسند کرتے ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم ان کو ایسی مار مارو جس سے ان کو زیادہ چوٹ نہ آئے۔ ‘‘
ایسی مار جو بطور علاج ہو اور جس میں وحشیانہ پن نہ ہو، توچونکہ اس کی اجازت ہے اس لیے اس پر قیامت کے دن باز پرس بھی نہیں ہوگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا یُسْأَلُ الرَّجُلُ فِیمَا ضَرَبَ اِمْرَأَتَہُ)) [2]
’’آدمی سے اپنی عورت (بیوی) کے مارنے پر باز پرس نہیں کی جائے گی۔ ‘‘
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَضْرِبُوا إِمَاءَ اللّٰہِ))
’’اللہ کی باندیوں کو مت مارا کرو۔ ‘‘ [3]
|