رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں کے حقوق کی اتنی فکر تھی کہ حجۃ الوداع کے خطبے میں بھی آپ نے اس کی تاکید فرمائی۔ آپ نے فرمایا:
((اَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنساء خَیْرًا، فَإِنَّمَاھُنَّ عَوَانٍ عِنْدَکُمْ لَیْسَ تَمْلِکُونَ مِنْھُنَّ شَیْئًا غَیْرَ ذٰلِکَ إِلَّا أَنْ یَّأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاھْجُرُوھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوھُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ، فَإِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْھِنَّ سَبِیلًا، أَلَا إِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ حَقًّا وَلِنَسَائِکُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا، فَأَمَّا حَقُّکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ فَلَا یُوْطِئَنَّ فُرُشَکُمْ مَنْ تَکْرَھُونَ وَلَا یَأْذَنَّ فِی بُیُوتِکُمْ لِمَنْ تَکْرَھُونَ، أَلَا وَحَقُّھُنَّ عَلَیْکُمْ أَنْ تُحْسِنُوا اِلَیْھِنَّ فِی کِسْوَتِھِنَّ وَطَعَامِھِنَّ)) [1]
’’سنو! تم عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو، بلا شبہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں (تم ہی ان کے سب کچھ ہو اور وہ تمہارے رحم و کرم پر ہیں) اس کے علاوہ تم ان کی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے۔ ہاں اگر وہ کھلی بے حیائی (بد زبانی و بد سلوکی) کا ارتکاب کریں تو تم ان سے بستروں میں علیحدگی اختیار کرلو اور ان کو اس طرح ہلکی مار مارو جس سے ان کو شدید ضرب نہ آئے۔ اگر (اس حکمت عملی سے وہ ٹھیک ہوجائیں ) تمہاری باتیں مان لیں تو تم ان کے لیے کوئی اور راستہ نہ ڈھونڈو (طلاق نہ دو)۔ یاد رکھو! تمہارے لیے تمہاری عورتوں پر حق ہیں اور اسی طرح تمھاری عورتوں کے لیے تم پر حق ہیں۔ تمہارا حق عورتوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر ایسے لوگوں کو نہ آنے دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور تمہارے گھروں میں ان کو اِذنِ باریابی نہ دیں جن کو تم اچھا نہیں سمجھتے۔ سنو! اور ان عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ ان کے لباس اور خوراک میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو (اس میں کوتاہی نہ کرو)۔ ‘‘
یہ ارشادِ مبارک بھی بڑا جامع ہے اور اس میں ازدواجی زندگی میں پیش آنے والے نشیب و فراز کے بارے میں بڑی مفید ہدایات دی گئی ہیں جن پر اگر میاں بیوی
|