’’مجھے دیگر انبیاء علیہم السلام پر چھ چیزوں میں فضیلت اور فوقیت دی گئی ہے:مجھے جوامع الکلم[1]عطا کیے گئے ہیں،میری رعب کے ساتھ مدد کی گئی ہے۔[2] میرے لیے غنیمتیں حلال کی گئی ہیں(لڑائی میں حاصل ہونے والا مالِ غنیمت)،میرے لیے زمین پاک کرنے والی چیز اور مسجد بنا دی گئی ہے،میں تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میری آمد سے نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘[3]
فرمانِ نبوی ہے:’مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ،وَ مَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ،وَ مَنْ أَطَاعَ أَمِیرِي فَقَدْ أَطَاعَنِي،وَ مَنْ عَصٰی أَمِیرِي فَقَدْ عَصَانِي‘
’’جس نے میری اطاعت کی،اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی،اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی،اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی حکم عدولی کی،اس نے میری حکم عدولی کی۔‘‘[4] حدیث نبوی ہے:
’إِنَّ الْجَنَّۃَ حُرِّمَتْ عَلَی الْأَنْبِیَائِ کُلِّہِمْ حَتّٰی أَدْخُلَہَا،وَ حُرِّمَتْ عَلَی الْأُمَمِ حَتّٰی تَدْخُلَہَا أُمَّتِي‘
’’میرے داخل ہونے سے پہلے جنت تمام انبیاء پر حرام کر دی گئی ہے اور میری امت کے داخل ہونے سے پہلے جنت تمام امتوں پر حرام کر دی گئی ہے۔‘‘[5]
اور فرمایا:((إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِیِّینَ وَ خَطِیبَہُمْ وَ صَاحِبَ شَفَاعَتِہِمْ غَیْرَ فَخْرٍ))
’’قیامت کے دن میں انبیاء علیہم السلام کا امام اور خطیب ہوں گا اور ان(کی امتوں)کی سفارش کرنے والا ہوں گا اور اس میں کوئی فخر نہیں۔‘‘[6] ارشادِ نبوی ہے:
((أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،وَ أَوَّلُ مَنْ یَّنْشَقُّ عَنْہُ الْقَبْرُ،وَ أَوَّلُ شَافِعٍ وَّ أَوَّلُ مُشَفَّعٍ))
’’میں قیامت کے دن اولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور سب سے پہلے میں قبر سے اٹھوں گا اور سب سے پہلے سفارش کروں گا اور سب سے پہلے میری سفارش قبول ہوگی۔‘‘[7]
|