Maktaba Wahhabi

39 - 138
چیز ہی ٹھہرایا ہے۔ قرآن میں کئی مقامات پر مذکور ہے کہ ﴿إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ ’’سوائے اس کے نہیں کہ تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں۔‘‘ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مال و دولت اگرچہ بذات خود ’خیر‘ ہے۔ لیکن مال کی محبت کی وجہ سے اکثریت کے لیے یہی خیر فتنہ کا سبب بن جاتی ہے۔ لہٰذا اس سے پرہیز ہی بہتر ہے۔ 3۔ انفاق فی سبیل اللہ کے تاکیدی احکام:  انفاق فی سبیل اللہ کا حکم جیسا خوشحالی کے دور میں ہے ویسا ہی تنگدستی کے دور میں بھی ہے نیز یہ حکم صرف امیروں کے لیے ہی نہیں حسب توفیق غریبوں کے لیے بھی ہے۔ ابتدائے اسلام کا زمانہ نہایت عسرت کا زمانہ تھا۔ اس دور میں بھی انفاق فی سبیل اللہ کے نہایت تاکیدی اور ترغیبی احکامات دیے گئے ہیں۔ (جیسے سورۃ ہمزہ اور ماعون میں) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت سے زائد مال و دولت کی گنجائش کم ہی نظر آتی ہے۔ 4۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا: 1۔  ﴿وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِ‌يدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ﴾ (18/ 28) ترجمہ: ’’اور تمہاری نگاہیں ان سے آگے نہ بڑھیں کہ تم آرائش زندگی دنیا کے خواست گار بن جاؤ۔‘‘
Flag Counter