Maktaba Wahhabi

72 - 138
ہزار درہم میں خریدا۔ آپ 32ھ؁ میں جنگ جمل میں شہید ہوگئے تو آپ کے بیٹے عبداللہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آپ کی وصیت کے مطابق یہ زمین بیچ دی۔ اس زمین کا بڑا حصہ سولہ لاکھ میں' ایک چھوٹا ٹکڑا چار لاکھ میں اور باقی ساڑھے چار لاکھ یعنی اس زمین کی مجموعی رقم ساڑھے چوبیس لاکھ وصول ہوئی۔(بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب برکۃ الغازی فی مالہ.....) اگرچہ ٹھیک طور پر معلوم کرنا مشکل ہے کہ حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زمین کا یہ ٹکڑا کس سن ہجری میں خریدا تھا تاہم یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ دور فاروقی میں خریدا گیا ہوگا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تو بسلسلہ مؤاخات انصار کے نخلستان میں نصف پیداوار پر کام کیا، جب خیبر فتح ہوا تو اس علاقہ کی آدھی زمین جو بزور شمشیر فتح ہوئی تھی مجاہدین میں تقسیم کردی گئی باقی آدھی زمین قومی ملکیت میں آ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی زمین میں سے بعض ضرورت مند مہاجرین کو جاگیریں عطافرمائیں اور انصار کو ان کے نخلستان واپس کردیے گئے۔ یہی جاگیریں دور عثمانی میں لاکھوں کی قیمت تک جا پہنچی تھیں۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اسی موقعہ پر جاگیر عطافرمائی تھی اور آپ صرف حاجب مندوں کو ہی دیا کرتے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم 7ھ؁ تک حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مالی حالت کچھ اچھی نہ تھی۔ اس دور کے بعد ایسی فتوحات و غمائم، جنہوں نے مسلمانوں کی معاشیات میں فراوانی پیدا کی، ہمیں عہد فاروقی میں ہی نظر آتی ہیں۔ لہٰذا اس دور میں ہی حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ غابہ کی زمین کی اتنی قیمت (ایک لاکھ ستر ہزار درہم) ادا کرنے کے قابل ہو سکتے تھے۔ جو 
Flag Counter