Maktaba Wahhabi

71 - 138
وہی جواب دیا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’لوگو! ہمارے پاس بہت سا مال آ گیا۔ اب اگر تم چاہو تو ہم تمہیں ماپ ماپ کر دیں، چاہو تو گن گن کے دیں اور چاہو تو وزن کر کے دیں۔‘‘ اس پر لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: ’’امیر المؤمنین! اس کام کے لیے ایک باقاعدہ رجسٹر مرتب کر لیجئے جس کے اندراج کے مطابق لوگوں کو رقوم دیدی جایا کریں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ کو اس شخص کی یہ بات بہت پسند آئی اور آپ نے ایسا ہی کرنے کا ارادہ کر لیا[1]۔ یہ روایت اس وقت کے معیار فراوانی کا پتہ دیتی ہے جبکہ پانچ لاکھ درہم کی رقم کو ایک ایسا خواب سمجھا جاتا تھا جسے صرف سونے والے یا ایسے اشخاص ہی بیان کر سکتے ہوں جن پر غنودگی کا عالم طار ی ہو۔ آگے چل کر  بڑی بڑی فتوحات نے صورت حال کو اور بھی زیادہ بدل دیا جیسا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’میں ایک بار سو رہا تھا۔ اتنے میں زمین کے خزانوں کی کنجیاں لا کرمیرے ہاتھ پر رکھ دی گئیں۔‘‘ ( اس حدیث کے راوی حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا سے تشریف لے گئے اور تم یہ خزانے نکال رہے ہو۔‘‘ (بخاري، كتاب الجهاد والسير، باب ... نصرت بالرعب...) اب دیکھیے افراک ظر کا لازمی نتیجہ اشیائے ضرورت کی گرانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ گرانی کس حد تک پہنچ چکی تھی۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے غابہ میں زمین کا ایک ٹکڑا ایک لاکھ ستر
Flag Counter