Maktaba Wahhabi

184 - 465
کہنا ہے۔اور سب سے کم ترشعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے۔اور حیاء ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے۔‘‘[1] اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزرایک انصاری آدمی کے پاس سے ہوا جو اپنے بھائی کو حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا۔( یعنی اسے کہہ رہا تھا کہ تم ہر وقت شرماتے ہی رہتے ہو اور حیاء کی وجہ سے فلاں فلاں کام نہیں کرتے……) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( دَعْہُ فَإِنَّ الْحَیَائَ مِنَ الْإِیْمَانِ )) ’’ اسے چھوڑ دو کیونکہ حیاء ایمان میں سے ہے۔‘‘[2] ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا :(( اَلْحَیَائُ وَالْإِیْمَانُ قُرِنَا جَمِیْعًا، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُہُمَا رُفِعَ الْآخَرُ )) [3] ’’ حیاء اور ایمان دونوں اکٹھے رہتے ہیں۔لہٰذا اگر ان میں سے ایک ختم ہوجائے تو دوسرا بھی ختم ہو جاتا ہے۔‘‘ یعنی جس شخص کے اندر ایمان موجود ہو اس کے اندر حیاء بھی ضرور ہو گی۔اور اگر حیاء نہ ہو تو ایمان بھی نہیں ہوگا۔گویا حیاء کا نہ ہونا ایمان کے نہ ہونے یا ایمان کے ناقص ہونے کی دلیل ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’ حیاء ‘ کسے کہتے ہیں ؟ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ ’’ حیاء اچھے اخلاق کی وہ صفت ہے جو انسان کو قبیح، گھٹیا اور بے حیائی پر مشتمل اقوال وافعال سے روکے اور اچھے اقوال واعمال پر ابھارے۔‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ ’ حیاء ‘ در حقیقت اُس عظیم صفت کا نام ہے جو انسان کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے ہر حرام عمل اور فحش قسم کے اقوال واعمال سے پرہیز کرے اور اچھے اقوال واعمال کو انجام دے۔ یہاں ہم یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ ’ حیاء ‘ کی دو قسمیں ہیں : 1۔فطری حیاء، جو ہر انسان میں، حتی کہ چھوٹے بچوں میں بھی ہوتی ہے۔مثلا ستر کو چھپانا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ابو البشر آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی حواء علیہا السلام نے جنت کے اُس درخت کا پھل کھا لیا جس سے اللہ تعالی نے انھیں منع کیا تھا تو ان کی شرمگاہیں ننگی ہوگئیں۔چنانچہ شرم کے مارے وہ جنت کے پتوں کے ذریعے ان کو ڈھانپنے لگے۔
Flag Counter