Maktaba Wahhabi

79 - 608
(اَلسَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ:ثَلاَثَۃٌ مُتَوَالِیَاتٌ:ذُوْالْقَعْدَۃِ، وَذُوْالْحَجَّۃِ، وَالْمُحَرَّمُ،وَرَجَبُ مُضَر اَلَّذِیْ بَیْنَ جُمَادیٰ وَشَعْبَانَ) [1] ’’ سال بارہ مہینوں کا ہے ، جن میں چار حرمت والے ہیں ، تین پے در پے ہیں اور وہ ذوالقعدۃ، ذوالحجہ اور محرم ہیں ۔ا ور چوتھا مہینہ رجبِ مضرہے جو کہ جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔ ‘‘ ’’ تین پے در پے اور چوتھا اکیلا ‘‘ اس میں کیا حکمت ہے ؟ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ ذوالقعدہ میں جوکہ حج والے مہینے سے پہلے آتا ہے‘ وہ لوگ قتال بند کردیا کرتے تھے۔ اور ذوالحجہ کے مہینہ میں وہ حج ادا کیا کرتے تھے ، پھر اس کے بعد ایک اور مہینہ بھی حرمت والا قرار دے دیا تاکہ وہ امن وامان سے اپنے وطن کو لوٹ سکیں ، پھر سال کے درمیان ایک اور مہینہ حرمت والا قرار دیا تاکہ وہ عمرہ اور زیارتِ بیت اﷲ کے لئے امن سے آجاسکیں۔[2] عزیزانِ گرامی ! اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں حرمت والے چار مہینوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: {فَلاَ تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ أَنْفُسَکُمْ } یعنی ’’ ان میں (خصوصی طور پر ) تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ۔ ‘‘ ظلم تو سال کے بارہ مہینوں میں ممنوع ہے لیکن ان چار مہینوں کی عزت وحرمت اور ان کے تقدس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے خاص طور پران میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع فرمادیا ۔ اس ظلم سے مراد کیا ہے ؟ ایک تو یہ مراد ہے کہ ان مہینوں میں جنگ وجدال اور قتال نہ کیا کرو ۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے : { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ}[3] ’’ لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ اس میں لڑائی کرنا بڑا گناہ ہے ۔ ‘‘ زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ ان چار مہینوں کی حرمت کا خیال رکھتے تھے اور آپس کی جنگ اور لڑائی کو ان میں روک دیا کرتے تھے ، پھر اسلام نے بھی ان کے احترام وتقدس کو برقرار رکھا اور ان میں لڑائی کو کبیرہ گناہ قرار دیا ۔ اور ظلم سے مراد یہ بھی ہے کہ تم ان چار مہینوں میں خصوصی طور پر اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچو ، کیونکہ ان میں نافرمانی کرنے کا گناہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
Flag Counter