Maktaba Wahhabi

571 - 608
’’ تم میں سے کوئی شخص (کامل ) ایمان والا نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔‘‘ اورصلہ رحمی کی فضیلت کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ أَحَبَّ أَن یُّبْسَطَ لَہُ فِیْ رِزْقِہٖ وَیُنْسَأَ لَہُ فِیْ أَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَہ[1])) ’’ جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراوانی اور اس کے اجل ( موت ) میں دیر ہو تو وہ صلہ رحمی کرے۔ ‘‘ صلہ رحمی کے بارے میں بہت سارے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے رشتہ دار ان سے صلہ رحمی کریں تو ان کو بھی اُن سے کرنی چاہئے حالانکہ یہ مفہوم بالکل غلط ہے اور صلہ رحمی کا درست مفہوم یہ ہے کہ اگر رشتہ دار قطع رحمی کریں تو ان سے صلہ رحمی کی جائے ، اگر وہ بدسلوکی کریں تو ان سے اچھا سلوک کیا جائے اور اگر وہ نہ دیں تو تب بھی انہیں دیا جائے ۔ الغرض یہ کہ رشتہ دار صلہ رحمی کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں اپنی طاقت کے مطابق انسان اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا رہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیِٔ وَلٰکِنِ الْوَاصِلُ الَّذِیْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہُ وَصَلَہَا[2])) ’’ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے ، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جس سے قطع رحمی کی جائے تو پھر بھی وہ صلہ رحمی کرے ۔ ‘‘ لہٰذا عید کی خوشیوں میں اقرباء اور فقراء ومساکین کو بھی شریک کرنا چاہئے ۔ برادران اسلام ! ہم نے اِس خطبہ کے آغاز میں ذکر کیا تھا کہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے اور امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کی جاتی ہے ۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہمارا دین ہم سے بس اسی قربانی کا نہیں بلکہ اور بھی کئی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے ۔ سب سے اہم قربانی یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی تمام خواہشات کو قربان کردیں اور اس کے احکامات پر عمل درآمد کے سلسلہ میں خواہشات کو آڑے نہ آنے دیں ۔ ہمارا المیہ یہ ہے
Flag Counter