Maktaba Wahhabi

429 - 608
اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ انسان دنیاوی کاموں سے بالکل منقطع ہو کرصرف باری تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اور اس کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کیلئے مکمل طور پر یکسو ہوجائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ عشرہ اعتکاف میں گذارتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ(کَانَ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم یَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْأوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّٰی تَوَفَّاہُ اللّٰہُ،ثُمَّ اعْتَکَفَ أَزْوَاجُہُ مِنْ بَعْدِہٖ)[1] ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف میں گذارتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فوت کردیا ۔ پھر آپ کے بعد آپ کی بیویاں اعتکاف بیٹھنے لگیں ۔ ‘‘ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ (کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَعْتَکِفُ فِی کُلِّ رَمَضَانَ عَشْرَۃَ أَیَّامٍ،فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِیْ قُبِضَ فِیْہِ اعْتَکَفَ عِشْرِیْنَ یَوْمًا) [2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف بیٹھتے تھے ۔ پھر جب وہ سال آیا جس میں آپ فوت ہوئے تو اُس میں آپ بیس دن اعتکاف بیٹھے ۔ ‘‘ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے مسلمان کو آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ جس میں وہ دنیاوی کاموں سے بالکل بے نیاز ہو کر بس اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجہ رہے۔ اُس کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھے ۔ کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرے ، نہ صرف تلاوت بلکہ اس میں غور وفکر اور تدبر کرے تاکہ اس سے اسے نصیحت حاصل ہو۔ اپنے تمام گناہوں پر سچے دل سے توبہ کرے ۔ بار بار اللہ تعالیٰ کے سامنے آنسو بہائے اور دنیا وآخرت کی خیر وبھلائی کا سوال کرے ۔ معتکف دورانِ اعتکاف مسجد سے باہر دنیاوی کاموں کیلئے تو کیا دینی کاموں کیلئے بھی مت نکلے ۔ سوائے ان ضروری کاموں کے جن کیلئے اس کا نکلنا نا گزیر ہو ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : (اَلسُّنَّۃُ عَلَی الْمُعْتَکِفِ أَنْ لَّا یَعُوْدَ مَرِیْضًا،وَلَا یَشْہَدَ جَنَازَۃً،وَلَا یَمَسَّ امْرَأَۃً،وَلَا یُبَاشِرَہَا،وَلَا یَخْرُجَ لِحَاجَۃٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْہُ) [3] ’’ معتکف کیلئے سنت یہ ہے کہ وہ دورانِ اعتکاف مریض کی عیادت کیلئے نہ جائے ، جنازہ کیلئے حاضر نہ ہو ،
Flag Counter