Maktaba Wahhabi

329 - 608
ارشاد باری تعالیٰ ہے : {إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ } ’’بے شک ہم نے اِسے لیلۃ القدر میں اتارا ۔ ‘‘ یعنی ’’ با برکت رات ‘‘ سے مراد لیلۃ القدر ہے جو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے اور اسی میں انسان کی زندگی ، موت ، رزق اور دیگر تمام حادثات ووقائع کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے ۔ ’’ با برکت رات ‘‘ کی یہی تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، قتادہ ، مجاہد، حسن وغیرھم نے کی ہے اور اِسی تفسیر کو جمہور مفسرین نے درست قرار دیا ہے ۔[1] امام ابو بکر ابن العربی کہتے ہیں: ’’جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ اِس رات سے مراد لیلۃ القدر ہے ۔ جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس سے مراد شعبان کی پندرھویں رات ہے اوریہ باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سچی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ { شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ } ’’ وہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن کو اتارا گیا ‘‘ پھر اس نے ماہِ رمضان کی ایک رات {لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ} کو متعین کردیا کہ اس میں قرآن مجید کو نازل کیا گیا ۔ لہٰذا جو شخص یہ دعوی کرے کہ ’ با برکت رات ‘ سے مراد کوئی اور رات ہے تو وہ اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھتا ہے اور شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت میں یا یہ کہ یہ رات فیصلوں کی رات ہے اِس کے متعلق جتنی حدیثیں آئی ہیں وہ سب کمزور ہیں ،لہٰذا ان کی طرف مت دیکھو۔ ‘‘[2] اور امام ابن کثیر کہتے ہیں : ’’ اِس بابرکت رات ‘ اور ’ فیصلوں والی رات ‘ سے مراد لیلۃ القدر ہے اور جس نے یہ کہا کہ اس سے مراد شعبان کی پندرھویں رات ہے جیسا کہ عکرمہ سے یہ بات روایت کی گئی ہے تو اس کی یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ خود نصِ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ رات رمضان کے مہینے میں آتی ہے۔ ‘‘ [3] لہٰذا شعبان کی پندرھویں رات کو فیصلوں کی رات قرار دینا بالکل غلط ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی اطاعت وفرمانبرداری پر قائم رہنے اور اپنی نافرمانی سے بچنے کی توفیق دے اور ہمارا خاتمہ توحید اور عمل صالح پر فرمائے ۔ آمین
Flag Counter