Maktaba Wahhabi

57 - 124
دیکھئے(تفسیر الطبری ج۱ ص۳۵،۵۲،اور فتح الباری ج ۹ ص ۲۷،۴۶،اور التمھیدشرح مؤطا ج۳ص ۶۲۵،۶۵۴) دوسری بات یہ کہ لوگوں کی سمجھ میں حدیث نہ آنے سے یا اس میں اختلاف کرنے سے حدیث غلط نہیں ہوجاتی جس طرح قرآن کی کوئی آیت لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے یا اس آیت کے تعین میں لوگ اختلاف کریں تو قرآن کی آیت غلط نہیں ہوجاتی۔ اعتراض غامدی:۔ آگے غامدی صاحب نے فرمارہے ہیں ’’کہ دوم یہ کہ اس کی واحد معقول توجیہ اگر کوئی ہوسکتی تھی کہ سبعہ احرف کو اس میں عربوں کے مختلف لغات اور لہجوں پر محمول کیا جائے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ روایت کا متن ہی اس کی تردید کردیتا ہے ہر شخص جانتا ہے کہ ھشام اور عمرفاروق جن دونوں بزرگوں کے بابین اختلاف کا ذکر اس روایت میں ہوا ہے وہ دونوں قریشی ہیں جن میں ظاہر ہے کہ اس طرح کے کسی اختلاف کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔(اصول ومبادی میزان ۳۱) جواب:۔ حیرت کی بات ہے غامدی صاحب اس حدیث کوغور سے پڑھنے کے باوجود اسے صحیح طرح سمجھ نہ پائے۔ اگر چہ یہ دونوں صحابی قریشی تھے لیکن یہ قرآن کی قرأت یا تلاو ت اپنی مرضی کے طریقے یا اپنی قوم کے اہل لغت کے کہنے پر نہیں پڑھ رہے تھے۔بلکہ اس حدیث میں وضاحت ہے کہ حضرت عمر کہہ رہے ہیں’’وکان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم اقرأ نیھا‘‘مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ(سورہ فرقان)خود پڑھائی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اپنی مرضی کے طریقے
Flag Counter