Maktaba Wahhabi

34 - 124
مزیدغامدی صاحب کو تفسیر البیان لکھنے کی کیا ضرورت پیش آئی کہ جب قرآن پر غور وفکر کرنے والے کے سامنے بات خود ہی واضح ہوجاتی ہے اس بات کا جواب غامدی صاحب سے مطلوب ہے یہاں سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب قرآن فہمی کے لئے قرآن سے باہر کی چیز کا سہارا لیتے ہیں لیکن جس کو وہ قرآن سے باہرکا نام دے کر غیر ضروری کہہ رہے ہیں اس سے ان کی مراد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے افسوس کی بات ہے کہ قرآن سے باہر اپنے اکابر کی آراء و اقوال کو قرآن سمجھنے کے لئے مان رہے ہیں لیکن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی شرح ماننے سے انکار کررہے ہیں آخر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی دشمنی کیوں ؟ غامدی صاحب خود قرآن ہی کی روشنی میں کسی سورت کی صورت حال یا اس کا پس منظر معلوم ہونا تو دور کی بات ہے بلکہ یہ بھی واضح نہیں ہوتی کہ یہ سورت کس جگہ پر نازل ہوئی مکہ میں یا مدینہ میں۔مثلاًسورۃ الفیل قرآن مجید ایک چھوٹی سی سورت ہے اللہ رب العالمین نے اس سورت میں ایک مخصوص واقعے کا ذکر کیا ہے اور اس واقعہ کے اندر بے پناہ اجمال ہے پورا قرآن مجید پڑھ جائیں کہیں پر بھی اصحاب الفیل کے اس واقعہ کی تفصیل تو در کنار دوسرا اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اصحاب الفیل کون تھے انہوں نے کیا مکر کیا اور کس وجہ سے ہلاک ہوئے ؟ہماری اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے غامدی صاحب کی اس عبارت کو بغور پڑہیں(قرآن اپنے طالب علموں سے جن باتوں کا تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہیں کہ اوّل یہ کہ اس کو سمجھنے کے لئے اس کے ماحول کو سمجھنے کی کو شش کی جائے یعنی وہ پس منظر وہ تقاضے اور وہ صورت حال معین کی جائے جس کو پیش نظر رکھ کر قرآن کی کوئی سورت نازل ہوئی ہو اس کے لئے قرآن کے باہر کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی یہ سب چیز یں خود قرآن ہی کی روشنی میں واضح ہو جاتیں ہیں:اصول ومبادی،ص۲۰۔۲۱) قارئین کرام!قرآن مجید ان سوالات و اشکالات کی وضاحت و تفصیل خود نہیں کرتا بلکہ یہ ذمہ داری اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ ‘‘
Flag Counter