Maktaba Wahhabi

27 - 124
بو آئے یا پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی طالب علم کے سامنے قدیم عربی کی کتابیں ہیں وہ ان کے جملے تشبیہات و استعارات اپنی تحریر میں منتقل کر رہا ہے۔(دیکھئے ماہنامہ ساحل شمارہ نمبر چار اپریل ۲۰۰۷،صفحہ نمبر ۲۷)۔ غامدی صاحب کی اپنی تحریروں میں فحش غلطیاں: غامدی صاحب اپنے مضمون شرح شواہد الفراہی صفحہ نمبر ۱سطر نمبر ۵’’بِوَادٍقَفرٍ ذُوعَقِبَاتٍ‘‘اس مرکب توصیفی کے اندر غامدی صاحب ایک فحش نحوی غلطی کر گئے ہیں ایک عام عربی دان جانتا ہے کہ یہاں’’ذو عقبات‘‘نہیں بلکہ ’’ذی عقبات‘‘ ہونا چاہیئے اس لئے کہ موصوف ’’واد‘‘مجرور ہے اور ’’ذو عقبات‘‘اس کی صفت ہے۔عربی قواعد کے مطابق موصوف صفت میں اعرابی مطابقت ہونی چاہیئے اسی طرح ’’اکثر ماتحجب‘‘بھی غیر مانوس لفظ ہیں اصل ’’ کثیر اماتحجب ‘‘ہونا چاہیئے تھا۔کیونکہ اس کے بلمقابل ’’قلیلا ما ‘‘ہے جس کا استعمال قرآن میں ہوا ہے ’’قلیلا ما تذکرون‘‘(النمل،آیت ۶۲) قارئین کرام!ایسا ادیب اور لغوی جس کی اپنی تحریرات کے اندر ایسی بنیادی غلطیا ں موجود ہیں کہ جس کی توقع عربی ادب کے ایک ابتدائی طالب علم سے بھی نہیں کی جاسکتی وہ کلام عرب سے استشہاد کے دعوے کرے اور صحابہ رضی اللہ عنہ و تابعین رحمہ اللہ کی بیان کردہ فصیح و بلیغ عربی پر طعن و تشنیع کرے تو ایسے نام نہاد ادیب اور لغوی کی لغویات کی حیثیت محض بیت عنکبوت کی سی ہے۔ اگر بالفرض قرآ ن مجید کی تفہیم کا مدار صرف لغت اور کلام عرب کو بنا دیا جائے تو ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر و تفہیم بازیچہ اطفال بن کر رہ جائے گی اور اس قدر عجیب و غریب تشریحات و تفاسیر معرض وجود میں آجائیں گی کہ جن کے ذریعہ معاشرے میں کفر و الحاد کو صحیح معنوں میں پنپنے کا موقع مل جائے گا۔
Flag Counter