Maktaba Wahhabi

26 - 124
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنی نفس پر ظلم نہ کرتا ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد وہ ظلم ہے جس کے نہ کرنے کا حکم لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو دیا تھا۔ (يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ)(سورہ لقمان آیت ۱۳) اے میرے بیٹے شرک نہ کرناکہ یقینا شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔(بخاری کتاب الایمان جلد ۱ حدیث ۱۳،صفحہ ۱۰۹) صحابہ کرام جو کہ فصحا عرب میں سے تھے لیکن عرب کی فصاحت وبلاغت کے عارفین ہونے کے باوجود قرآن کی اس آیت کو نہ سمجھ سکے۔جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی طرف رجوع کیا تو اس آیت کا مفہوم واضح ہوگیا لہٰذا یہ بات ضوء النھار کی طرح واضح ہے کہ عربی لغت کی فہم کا خاص طور پر قرآنی لغت کی فھم کو کلام عرب(شعر جاہلیت)سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی ضرورت ہے اور ہمیشہ سلف نے اسی پر اعتماد کیا ہے اور ابھی بھی قرآن کے بعد سب سے زیادہ اسی پر اعتماد کیا جائے گا۔ غامدی صاحب خود کواپنے تئیں بہت بڑا لغوی اور ادیب گردانتے ہیں اپنی ساٹھ سالہ علمی زندگی کے اندر انہوں نے صرف ایک سو بائیس صفحات عربی میں لکھے ہیں جو کہ مختلف رسائل میں مضامین کی صورت میں شائع ہوئے ہیں۔ان مضامین میں استعمال کردہ عربی سے بوسیدگی محسوس ہوتی ہے اس میں زیادہ تر الفاظ متروک الاستعمال ہیں۔ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی فرماتے ہیں کہ غامدی صاحب کے انداز بیان میں وہ عیب ہے جو عربی زبان میں ’’عجمہ‘‘یعنی عجمیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ساتھ ہی ان کی عربی تحریریں پڑھ کر یہ احساس ابھرتا ہے کہ یہ عربی زبان کے اسلوب سے بے خبر ہیں انہوں نے بیسویں صدی کے مشہور ادباء محمود احمد شاکر،طہ حسین،احمد حسن زیات،احمد تیمور پاشا،علی طنطاوی وغیرہ اور اسی طرح عراق سعودی عرب اور مراکش کے ادیبوں اور مصنفین کی تحریروں کو نہیں پڑہا ہے،ورنہ ان کی عربی کا اسلوب ایسا نہ ہوتا کہ جس سے بوسیدگی کی
Flag Counter