بنا پر اس کی سرزنش کی جائے گی،بلکہ اسے سزا دی جائے گی اور اس کی گواہی مسترد کی جائے گی۔‘‘
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ یُؤْمَرُ بِالصَّلَاۃِ مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ،فَإِنْ کَانَ لَا یُصَلِّيْ فَإِنَّہُ یُسْتَتَابُ،فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا قُتِلَ۔وَإِذَا ظَہَرَ مِنْہُ الْاِہْمَالُ لِلصَّلَاۃِ لَمْ یُقْبَلْ قَوْلُہُ:’’ إِذَا فَرَغْتُ صَلَّیْتُ ‘‘،بَلْ مَنْ ظَہَرَ کِذْبُہُ لَمْ یُقْبَلْ قَوْلُہُ،وَیُلْزَمُ بِمَا أَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ وَرَسُوْلُہُ ‘‘۔[1]
’’سب تعریف اللہ کے لیے،اسے مسلمانوں کے ساتھ نماز کا حکم دیا جائے گا۔اگر وہ(سرے سے)نماز(ہی)نہیں پڑھتا،تو اسے توبہ کرنے کے لیے کہا جائے گا۔اگر اس نے توبہ کرلی(تو بہتر)،وگرنہ اسے قتل کیا جائے گا۔[2] اگر نماز کے بارے میں اس کی لاپروائی ظاہر ہوئی،تو اس کا یہ کہنا:[فارغ ہو کر نماز ادا کرلوں گا] قبول نہیں ہوگا،بلکہ جس کا جھوٹ ظاہر ہوگیا،اس کی بات قبول نہ کی جائے گی اور اس سے اللہ تعالیٰ اور ان کے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کروائی جائے گی۔‘‘
ہ:امام ابن قیم [3] کا بیان:
ا:باجماعت نماز کے متعلق دیگر علماء کی آراء نقل کرتے ہوئے حضرت امام رحمہ اللہ
|