حکم حتمی ہے،(محض)مستحب نہیں،کیونکہ اگر اذان سننے والے پر جماعت کی خاطر آنا فرض نہ ہوتا،تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے اجازت دے دیتے،کیونکہ یہ خصوصی سوال کا جواب تھا اور یہ بات ناممکن ہے،کہ ایسا عمل چھوڑنے کی گنجائش نہ ہو،جو کہ فرض(بھی)نہ ہو۔‘‘
۳:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کردہ حدیث:
[مَنْ سَمِعَ النِّدَائَ فَلَمْ یُجِبْ … الحدیث [1]
پر ان کا تحریر کردہ عنوان:
[ذِکْرُ الْخَبْرِ الدَّالِ عَلٰی أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ حَتْمٌ لَا نَدْبٌ] [2]
[اس بارے میں دلالت کرنے والی حدیث کا ذکر،کہ یہ حکم حتمی ہے،مستحب نہیں]
۴:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے فرمان:
[کُنَّا إِذَا فَقَدْنَا الْإِنْسَانَ فِيْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ … الخ [3]
پر ان کا تحریر کردہ عنوان:
[ذِکْرُ مَا کَانَ یَتَخَوَّفُ عَلٰی مَنْ تَخَلَّفَ عَنِ الْجَمَاعَۃِ فِيْ أَیَّامِ الْمُصْطَفٰی صلي اللّٰه عليه وسلم ] [4]
[مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جماعت سے پیچھے رہنے والے کے متعلق ہونے والے اندیشے کا ذکر]
|